Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

حالی اور دلی کی بربادی کا غم

الطاف حسین حالی کا اصل وطن پانی پت تھا، پیدائش کے وقت ہی اس شہر سے ان کا طویل ذہنی رشتہ تھا ، لیکن پانی پت کے مقابلے میں انھیں دلی سے زیادہ محبت تھی اور ذہنی لگاؤ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دلی علم و فن اور شعر و ادب کا گہوارہ تھا۔ حالی نے 1857ء سے پہلے کے اس دلی شہر کو دیکھا تھا جو اگرچہ برباد ہو چکا تھا لیکن انجمن آرائی اور بعض دوسری وجوہ سے اب بھی عالم میں انتخاب شہر تھا۔ حالی نے اس دلی کو دیکھا جسے آسمانِ ادب کے چاند ستاروں نے منور کر رکھا تھا اس شہر میں اس عہد کی ممتاز ترین ادبی شخصیتوں سے حالی کو قربت حاصل رہی تھی۔ حالی کو ان لوگوں کی یاد زندگی بھر تڑپاتی رہی۔ حالات سے مجبور ہو کر جب حالی کو دلی چھوڑنا پڑی تو انھیں بہت سخت تکلیف ہوئی۔ اس تکلیف کا اظہار انھوں نے اس شعر میں کیا ہے۔ 

دلی سے نکلتے ہی ہوا جینے سے دل سیر

 گویا نہ رہا اب کہیں دنیا میں ٹھکانہ

1857ء کے ناکام انقلاب سے متاثر ہو کر دلی کی بربادی پر مختلف شاعروں نے خاصی تعداد میں اشعار اور مرثیے کہے ہیں مگر حالی نے جو اشعار کہے ہیں۔ ان کی اردو میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہر شعر درد و غم کی مکمل تصویر ہے۔ 31 دسمبر 1914ء اور پہلی جنوری 1915ء کی درمیانی رات کو دو بجے دنیائے ادب کو روشن کرنے والا خورشیدِ عالم تاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ یکم جنوری کو دن کے دو بجے حالی کو پانی پت میں حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر کی درگاہ میں مدفون کر دیا گیا۔ حالی کی وفات سے کچھ ہی دن پہلے علامہ شبلی خدا کو پیارے ہو گئے تھے۔ ابھی ان کی جدائی کا غم تازہ تھا کہ حالی بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ ان دونوں کی وفات پر علامہ اقبالؒ نے کہا: 

شبلیؔ کو رو رہے تھے ابھی اہلِ گلستاں 

حالیؔ بھی ہو گیا سوئے فردوس رہ نورد

خالد محمود


 

Post a Comment

0 Comments