اردو تنقید کا آغاز الطاف حسین حالی کی تصنیف ’’مقدمۂ شعرو شاعری‘‘ سے ہوتا ہے۔ دراصل ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ دیوانِ حالی کا مقدمہ ہے جو انہوں نے اپنی شاعری کے جواز کے لیے قلم بند کیا تھا۔ لیکن یہ نئی شاعری کا جواز بن گیا۔ حالی کے تنقیدی خیالات ان کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں اورمقالاتِ حالی میں بھی ملتے ہیں۔ لیکن ’’مقدمۂ شاعرو شاعری‘‘ میں انہوں نے مرتب طریقے سے اپنے تصورات نقد کا اظہار کیا ہے۔ اس تصنیف کے دو بڑے حصے ہیں:
۱۔ وہ حصہ جس میں انہوں نے نظریہ قائم کیا ہے۔ ۲۔ وہ حصہ جس میں انہوں نے اردو شاعری کی مختلف اصناف پر اپنے قائم کردہ نظریے کا اطلاق کیا ہے۔ حالی نے جن امور پر خصوصی طور پر اصرار کیا، وہ درج ذیل ہیں: ۱۔ شاعری کا مقصد کیا ہے۔ ۲۔ اس کا معاشرتی زندگی سے کیا تعلق ہے۔ ۳۔ معاشرتی زندگی اور اخلاق کا شاعری پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ۴۔ معاشرے کے اخلاق کا شاعری پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ۵۔ شاعری کی شرائط کیا ہیں۔ ۶۔ شاعری میں کمال کیسے حاصل کیا جائے۔ ۷۔ شاعری کی اصلاح کیوں ضروری ہے۔ ۸۔ تقلید کی وجہ سے شاعری کا دائرہ تنگ کیوں ہو جاتا ہے؟
حالی کے نزدیک شاعری محض مرصع کاری نہیں ہے بلکہ اس کی بہت بڑی خوبی اس کی افادیت میں چھپی ہوئی ہے۔ قوموں کی زندگی کو بدلنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے۔ بامقصد شاعری سوسائٹی کے اخلاق کو سدھارتی اور اجتماعی زندگی کو ایک لائحہ عمل مہیا کرتی ہے۔ اسی لیے حالی شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دیتے ہیں۔ حالی وہ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے تخیل، مطالعۂ کائنات اور الفاظ کی اہمیت جتلائی اور یہ بتایا کہ شاعری کے لیے اصلیت یعنی حقیقت پسندی، سادگی یعنی سلاستِ اسلوب و سلاست خیال اور جوش یعنی اثر آفرینی شرط کا درجہ رکھتی ہے۔ حالی کے علاوہ محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب میں جو لیکچر دیے تھے ان میں بھی گہری ناقدانہ بصیرت ملتی ہے جیسے فرسودہ خیالات اور تقلیدی خیالات کے برخلاف نئے خیالات کی طرف انہوں نے توجہ دلائی۔
انہوں نے شاعری کے منصب کی طرف بھی واضح اشارے کیے اور شاعری کی ماہیت کو بھی موضوع بحث بنایا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شاعری کب عروج حاصل کرتی ہے اور کن وجوہ سے اسے زوال کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ حالی کی طرح آزاد بھی شاعری کی اثر آفرینی کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری اگر نیچرل ہے تو اس میں شائستگی، پاکیزگی اور تاثیر بھی ہو گی۔ آزاد نے لسانیاتی بحثیں بھی کی ہیں۔ انہوں نے زبان کی ابتدا کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار یوں کیا: ’’زبان وہ اظہارِ خیال کا وسیلہ ہے کہ ان متواتر آوازوں کے سلسلے میں ظاہر ہوتا ہے جنہیں تقریر یا سلسلۂ الفاظ یا بیان یا عبارت کہتے ہیں۔ یہ بیان یا عبارت ہمارے خیالات کی زبانی تصویر ہے۔‘‘
آزاد نے حروف، اصوات، الفاظ اور ان کے اثر پر بھی اظہار خیال کیا اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح زبانیں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں اور ان اثرات کی بنا پر قوموں میں کس کس قسم کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک اصلی زبان عوام کی زبان ہوتی ہے، خواص کی نہیں۔ آزاد کو ہم حالی کی طرح باقاعدہ نقاد نہیں کہہ سکتے۔ وہ تذکرہ نگار اور مؤرخ تھے لیکن بکھری ہوئی شکل میں اور ’’آبِ حیات‘‘ میں جگہ جگہ ان کے خیالات میں جو تازگی ملتی ہے اس سے ان کی تنقیدی جودت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ حالی کے علاوہ شبلی کے تنقید تصورات بھی اردو تنقید کی تاریخ میں ایک اہم درجہ رکھتے ہیں۔ شبلی ایک مفکر اسلام، ایک مؤرخ، ایک سوانح نگار، ایک شاعر اور ایک نقاد کی حیثیت سے بھی اہم درجہ رکھتے ہیں۔