عالم لوگ پڑھے لکھے میرے جیسے پروفیسر بات کرنے والے، ایڈیٹوریل لکھنے والے کہتے ہیں گفتگو اگر ہوتی رہے، اگر اس طرح کا مواد چھپتا رہے تو لوگ ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے۔ جب میں بہت تنگ آ جاتا تھا، کبھی لاڈ میں ہوتا تھا۔ تو میں پوچھتا تھا ان سے کہ بابا جی یہ بتائیں کہ دین کیا ہوتا ہے اسلام کیا ہوتا ہے مومن کیا ہوتا ہے؟ تو میں نے ایک دن پوچھا ان سے۔ میں نے کہا ''جی بابا جی بتائیں کہ مسلمان کون ہوتا ہے؟‘‘ کہنے لگے: ''مسلمان وہ ہوتا ہے۔ جس کا دل صاف ہو، اور ہاتھ گندے ہوں‘‘ میں نے کہا: ''حضور یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی‘‘ کہنے لگے: ''بھائیوں کے کام کرتا رہے گا اس کے ہاتھ تو گندے ہوں گے، جو آرام سے بیٹھا ہو گا دستانے پہن کے اس کا تو کچھ نہیں خراب ہونا ہے۔
تو مسلمان وہ ہوتا ہے جو اُس کا گارا لگانا ہے، اُس کی اینٹ اُٹھانی ہے، اُس کیلئے لکڑیاں لا کر دینی ہیں جو روتا ہے اس کے آنسو پونچھنے ہیں۔ وہ ہوتا ہے مسلمان‘‘ ہم کو تو ایسی Defination کسی کتا ب میں نہیں ملتی ہے یہ اُن کے پاس بیٹھنے سے ان کی خدمت میں حاضر ہونے سے ایسی چیزیں ملتی ہیں تو اب عمل میں داخل ہونے کے لیے کیا کچھ کیا جائے، کیسے کیا جائے، یہ بڑا مشکل کام ہے۔ کیونکہ گفتگو بڑی آسان ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں، احسن صاحب، ٹیلی کمیونیکیشن کے چیف انجینئر ہیں۔ وہ کہتے ہیں جتنی بھی فارن کالز ہوتی ہیں، ان میں اکثر لوگ یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ: ''ہو ر سناؤ کیہ حال اے ‘‘ ہو ر سناؤ جی کہتا رہتا ہے آدمی۔ یا زیادہ سے زیادہ موسم کا حال پوچھتا ہے۔
تو کہنے لگے اگر ان ٹرنک کال میں سے لانگ ڈسٹنس کالز میں سے ''ہو ر سناؤ کیہ حال اے‘‘ کو جمع کیا جائے اور جتنا ٹائم وہ بنتا ہے، اس ٹائم کے اندر ساڑھے تین میل لمبی سرنگ کھودی جا سکتی ہے۔ وہ عمل میں ٹرانسلیٹ کر رہے ہیں نا اس کو۔ تو اب یہ فیصلہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ نے دین کو کس حساب سے اختیار کرنا ہے۔ بابے تو یہ کہتے ہیں کہ کسی کے دکھ درد میں شریک ہوں اور اپنے ہاتھ گندے رکھو، اور دل اپنا صاف ستھرا رکھو، پھر تو مزہ ہے، پھر Unity ہو گی، کہے بغیر۔ لکھے بغیر۔ یہ مسلمانوں کو کیا ہو گیا کہ آپس میں ملتے نہیں ہیں۔ یہ کیا ہو گیا۔ یہ کرنے سے ہوتا ہے، اور اُن کے قریب جانے سے ہوتا ہے اُن کی دکھ درد کی کہانی سننے سے ہوتا ہے۔ نہ بھی کچھ کر سکیں تو ایک کان ضرور اُن کے ساتھ لگا کر بیٹھیں، ان کو بڑی ضرورت ہے، سارے اس بات کے لیے تقاضا کر رہے ہیں کہ آئیں اور ہمارے پاس بیٹھیں۔
0 Comments