وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے
سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری !
میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے
ایک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
بہتے اشکوں سے شعاعوں کی سبیلیں پھوٹیں
چبھتے زخموں سے فنِ نقش نگاری نکلے
ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے
عکس کوئی ہو خد و خال تمھارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمھاری نکلے
اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسن
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے
محسن نقوی
0 Comments