Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

اقبالؒ اور داغؔ سے اصلاح

1891ء میں علامہ اقبالؒ نے مڈل کا امتحان پاس کیا اور نویں جماعت میں داخل ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر چودہ پندرہ سال تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے شعر کہنے کب شروع کیے۔ یکتا حقانی امروہوی اپنی کتاب سیرت اقبال میں تحریر کرتے ہیں کہ ان کی طبیعت کا رجحان نوعمری ہی سے شعر و شاعری کی طرف تھا۔ بچپن میں وہ اکثر فقرے ایسے بول جاتے جو کسی نہ کسی بحر یا وزن میں ہوتے تھے۔ اس کے بعد سکول میں اکثر چھوٹی چھوٹی غزلیں کہا کرتے تھے اور ان کو کسی قابل نہ سمجھ کر پھاڑ کر پھینک دیا کرتے۔ لیکن اس کے بعد جوں جوں ان کی سید میر حسن سے وابستگی بڑھی تو شاعری کی تحریک سید میر حسن کے فیضان صحبت سے ہوئی اور انہوں نے ابتدائی زمانہ میں سید میر حسن ہی سے اصلاح لی۔

یہ بات سید میر حسن کے چھوٹے بیٹے اور اقبالؒ کے ہم جولی، سید ذکی شاہ بھی اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ اقبالؒ نے اپنی ابتدائی مشق میں غزلوں کی اصلاح میں میرے والد سے فیض حاصل کیا، جس کا وہ اکثر ذکر کیا کرتے تھے۔ مگر ہمارے سامنے اقبالؒ کا ایسا بیان بھی ہے جس میں انہوں نے ارشاد کیا ہے کہ شاہ صاحب کے احترام کے پیشِ نظر وہ ان کے روبرو شعر کہنے کی جرأت نہ کرتے تھے۔ ممکن ہے سید میر حسن کے فیضان صحبت سے اقبالؒ کو شاعری کی تحریک ہوئی ہو۔ مگر یہ کہنا شاید درست نہیں کہ سید میر حسن فنِ شعر گوئی میں اقبالؒ کے استادِ اول تھے۔ اگر اقبالؒ ابتدائی مراحل میں ان سے اصلاح لیتے تھے تو پھر انہیں ان مراحل میں داغؔ کی شاگردی اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ اقبالؒ نے سید میر حسن کے مشورہ سے داغؔ کی شاگردی اختیار کی۔ اقبالؒ نے 1893ء میں میٹرک کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن لے کر کامیابی حاصل کی اور تمغہ و وظیفہ بھی پائے۔ تب ان کی عمر سولہ برس تھی۔ 

میٹرک کا نتیجہ اسی برس چار مئی کو نکلا اور وہ پانچ مئی کو اسکاچ مشن کالج میں داخل ہو گئے۔ تب اسکاچ مشن سکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں جاری ہو گئی تھیں اور اس کا نام اسکاچ مشن کالج رکھ دیا گیا تھا۔ اس لیے اقبالؒ نے میٹرک پاس کرنے کے بعد ایف اے کی تعلیم وہیں جاری رکھی۔ اقبالؒ کی چند پرانی غزلیں جو رسالہ زبان دہلی کے شمارہ نومبر 1893ء اور بعد کے شماروں میں شائع ہوئیں، سے ظاہر ہے کہ وہ نہ صرف سولہ سترہ سال کی عمر میں اچھی غزلیں کہنے لگے تھے بلکہ ان کی غزلیں دہلی کے رسالوں کی زینت بھی بنتی تھیں۔ ان کی جو غزل زبان دہلی کے شمارہ فروری 1894ء میں شائع ہوئی، اس کا مقطع ہے. 

گرم ہم پر کبھی ہوتا ہے جو وہ بت اقبال

حضرتِ داغ کے اشعار سنا دیتے ہیں

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبالؒ نے میرزا خان داغ (1831ء تا 1905ئ) کی شاگردی کب اختیار کی؟ زبان دہلی کے شمارہ نومبر 1893ء میں، بقول پروفیسر حمید احمد خان، اقبالؒ کو تلمذ بلبلِ ہند حضرت داغ دہلوی، لکھا گیا ہے۔ اور اس شمارے میں اقبالؒ کی غزل ان کی دریافت شدہ غزلوں میں سے قدیم ترین ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اقبالؒ ایف اے کے سال اول کے زمانے میں داغؔ کے شاگرد ہوئے۔ 1909ء میں فوق نے جو اقبالؒ کے مختصر حالات زندگی تحریر کیے ہیں، ان میں درج ہے کہ اقبالؒ نے ایف اے کے طالب علمی کے دنوں میں داغؔ سے اصلاح لینی شروع کی۔

سری رام نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ اقبالؒ نے ابتدا میں چند غزلیں میرزا ارشد گورگانی کو دکھائیں اور پھر داغؔ سے بذریعہ خط و کتابت تلمذ اختیار کیا۔ مگر یہ درست نہیں کیونکہ ارشد گورگانی سے اقبالؒ کی پہلی ملاقات بھاٹی دروازہ لاہور کے ایک مشاعرہ میں 1895ء کے بعد ہوئی۔ سر عبدالقادر بانگ درا کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں: ’’(اقبالؒ) ابھی سکول ہی میں پڑھتے تھے کہ کلامِ موزوں زبان سے نکلنے لگا۔ پنجاب میں اردو کا رواج اس قدر ہو گیا تھا کہ ہر شہر میں زبان دانی اور شعر و شاعری کا چرچا کم و بیش موجود تھا۔ سیالکوٹ میں بھی شیخ محمد اقبال کی طالب علمی کے دنوں میں ایک چھوٹا سا مشاعرہ ہوتا تھا۔ اس کے لیے اقبال نے کبھی کبھی غزل لکھنی شروع کر دی۔ 

شعرائے اردو میں ان دنوں نواب میرزا خان صاحب داغ دہلوی کا بہت شہرہ تھا اور نظام دکن کے استاد ہونے سے ان کی شہرت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ لوگ جو ان کے پاس جا نہیں سکتے تھے، خط و کتابت کے ذریعہ دور ہی سے ان سے شاگردی کی نسبت پیدا کرتے تھے۔ غزلیں ڈاک میں ان کے پاس جاتی تھیں اور وہ اصلاح کے بعد واپس بھیجتے تھے۔ پچھلے زمانے میں جب ڈاک کا یہ انتظام نہ تھا کسی شاعر کو اتنے شاگرد کیسے میسر آ سکتے تھے۔ اب اس سہولت کی وجہ سے یہ حال تھا کہ سینکڑوں آدمی ان سے غائبانہ تلمذ رکھتے تھے اور انہیں اس کام کے لیے ایک عملہ اور محکمہ رکھنا پڑتا تھا۔ شیخ محمد اقبال نے بھی انہیں خط لکھا اور چند غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں۔

اس طرح کی گنجائش بہت کم ہے اور یہ سلسلہ تلمذ کا بہت دیر قائم نہیں رہا۔ البتہ اس کی یاد دونوں طرف رہ گئی۔ داغؔ کا نام اردو شاعری میں ایسا پایہ رکھتا ہے کہ اقبال کے دل میں داغؔ سے اس مختصر اور غائبانہ تعلق کی بھی قدر ہے اور اقبال نے داغؔ کی زندگی ہی میں قبول عام کا وہ درجہ حاصل کر لیا تھا کہ داغؔ مرحوم اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، جن کے کلام کی انہوں نے اصلاح کی۔ مجھے خود دکن میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میں نے خود ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے۔‘‘

جاوید اقبال


 

Post a Comment

0 Comments