Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

الطاف حسین حالیؔ بحیثیت شاعر

مولانا الطاف حسین حالیؔ کو ابتدا ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ اگرچہ ان کی باضابطہ تعلیم نہیں ہو سکی تھی لیکن شادی کے بعد جب وہ دہلی گئے اور وہاں نواب مصطفی خاں شیفتہؔ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے تو ان کے شعری ذوق کو جِلا ملی۔ وہیں شیفتہؔ سے اپنے کلام پر اصلاح لینے لگے۔ شیفتہؔ نے ان کا تخلص خستہؔ رکھا لیکن غالبؔ کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہونے کے بعد اپنا تخلص حالیؔ اختیار کیا۔ ابتدا میں وہ روایتی انداز کی غزلیں لکھتے رہے مگر جب سرسید احمد خاں سے ملاقات ہوئی تو حالیؔ کے شعری رویہ میں تبدیلی آئی۔ ’’مسدس‘‘ میں ان تبدیلیوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے، بعد میں جب انجمن پنجاب لاہور سے وابستہ ہوئے تو کرنل ہالرائیڈ کے مشورے سے نظموں اور قومی اور وطنی شاعری کی طرف مائل ہوئے۔ 

حالیؔ نے اگرچہ بحیثیت نظم نگار نام کمایا ہے لیکن ان کے سرمایہ سخن میں غزل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی غزلیں روایتی موضوعات سے قریب ہوتے ہوئے بھی توازن اور اعتدال کی کیفیت رکھتی ہیں، ان کی آواز اور لہجہ میں دھیما پن ہے۔ حالیؔ نے نظم نگاری میں صرف نیچرل شاعری کی بنیاد ہی نہیں رکھی بلکہ شاعری کی مختلف روایتی اصناف کو جدید انداز سے استعمال کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا۔ انہوں نے مثنوی میں عشقیہ، رزمیہ اور متصوفانہ موضوعات کے بجائے عصری مسائل کو اپنا موضوع بنایا۔ 

انہوں نے پہلی مرتبہ ’’چپ کی داد‘‘، ’’بیوہ کی مناجات‘‘میں عورتوں کے اور خصوصیت سے بیوہ عورت کے ناگفتہ بہ حالات کی ایسی سچی اور حقیقی تصویر پیش کی جس سے اردو ادب اس وقت تک خالی تھا۔ حالیؔ نے حُبِ وطن، فطرت پرستی اور ملک کے سیاسی اور معاشرتی حالات پر شاندار نظمیں تخلیق کیں، ان نظموں کی زبان سادہ ہے اور ضرب الامثال سے ان کو جگمگا دیا ہے۔ حالیؔ نے نظم نگاری کے میدان میں شخصی مرثیہ کی بنیاد ڈالی اور غالب، مومن، ملکہ وکٹوریہ اور محسن الملک پر مرثیے لکھے۔ ان میں جن پر مرثیے لکھے ہیں ان اشخاص کے اخلاق اور بہترین اوصاف کو شعر کے پیکر میں ڈھالا۔ ساتھ ہی ان کی خدمات کا ذکر بھی کیا ہے۔ 

ڈاکٹر اقبال مسعود


Post a Comment

0 Comments