بعض شخصیات کثیر الجہات ہوتی ہیں۔ ان کے فن کا محاکمہ کرنا آسان کام نہیں۔ ڈاکٹر انور سجاد کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا تھا۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر بھی تھے اور افسانہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے بھی تحریر کیے اور ناول بھی تخلیق کیے۔ اس کے علاوہ مصور بھی تھے اور کہا جاتا ہے کہ رقص کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ تھے۔ 27 مئی 1935ء کو لاہور میں جنم لینے والے ڈاکٹر انور سجاد 50ء کی دہائی میں ایف سی کالج کے طالب علم تھے۔ انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا اور ایک مدت تک کلینک چلاتے رہے۔ کالج کے دنوں میں وہ یونین کے سیکرٹری جنرل تھے۔
اس کے علاوہ وہ کالج کے جریدے کے مدیر تھے۔ انہیں اس جریدے کے مدیر ہونے پر ہمیشہ فخر رہا۔ یہ وہ جریدہ تھا جس کے مدیر کرشن چندر اور برصغیر کے کئی نامور ادیب بھی رہے۔ ایک دفعہ ان سے استفسار کیا گیا کہ کیا وہ دوبارہ طالب علم بننا پسند کریں گے تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ میں تو اب بھی طالب علم ہوں۔ ڈاکٹر انور سجاد نے 1950ء میں لکھنا شروع کیا۔ وہ کئی ادیبوں سے متاثر تھے لیکن سب سے زیادہ متاثر انہیں سعادت حسن منٹو نے کیا۔ انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ کسی بھی شعبے میں مہارت رکھتے ہیں البتہ ان کا یہ اصرار تھا کہ انہوں نے جس شعبے میں بھی ہاتھ ڈالا وہاں پوری محنت سے کام کیا اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔
ڈاکٹر انور سجاد نے علامتی اور استعاراتی افسانہ نگاری میں کمال حاصل کیا۔ انہوں نے اس میدان میں ایک منفرد مقام پایا۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’استعارے‘‘ اس کی زندہ مثال ہے۔ ان کے لازوال افسانوں میں ’’کونپل، کارڈیک دمہ، کیکر، سنڈریلا‘‘ اور دیگر کئی افسانے شامل ہیں۔ انور سجاد افسانہ نگاروں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جن میں بلراج مینرا، سریندر پرکاش، رشید امجد، سمیع آہوجا، مظہر الاسلام اور منشا یاد شامل ہیں۔ انہوں نے جو لسانی تشکیلات مرتب کیں وہ بے مثال ہیں۔ وہ جدید اردو افسانے کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے براہ راست ابلاغ کے افسانے تحریر نہیں کیے بلکہ ان کے افسانوں کی تکنیک مختلف تھی اور انہیں سمجھنے کے لیے قاری کو ذرا محنت کرنا پڑتی ہے۔ ان کی کتابوں میں ’’استعارے، چوراہا، جنم روپ، خوشیوں کا باغ اور نیلی نوٹ بک‘‘ شامل ہیں۔ وہ ترقی پسند ادیب تھے اور ان کے نظریات کی پرچھائیاں ان کی تحریروں میں ملتی ہیں۔ 1989ء میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں اور بھی کئی ایوارڈ دئیے گئے۔ ڈاکٹر انور سجاد نے کئی ٹی وی ڈرامے بھی تحریر کیے اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے بھی نام کمایا۔ خاص طور پر ان کے طویل دورانیے کے ڈرامے بہت پسند کیے گئے۔
ان کی ایک ٹیلی فلم ’’ذکر ہے ایک سال کا‘‘ بھی بہت پسند کی گئی۔ ان کے ٹی وی ڈرامے ’’پکنک، رات کا پچھلا پہر، کوئل، صبا اور سمندر اور یہ زمیں میری ہے‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر انور سجاد ایک عمدہ اداکار بھی تھے جنہوں نے کئی ٹی وی ڈراموں میں کام کیا۔ ’’صبا اور سمندر‘‘ میں شاندار اداکاری پر انہیں سرکاری ٹی وی کے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ ان کی ایک ڈرامہ سیریز ’’زرد دوپہر‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی۔ اس سیریز میں شجاعت ہاشمی نے بھی یادگار کردار ادا کیا تھا۔ یہ ڈرامہ سیریز 90 ء کی دہائی میں سرکاری ٹی وی پر دکھائی گئی۔
وہ پاکستان آرٹس کونسل لاہور کے چیئرمین بھی رہے۔ 1977ء میں وہ تھوڑے عرصے کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔ یہاں انہوں نے ثابت کیا کہ وہ بہت اچھے مقرر بھی ہیں۔ ڈاکٹر انور سجاد کچھ مدت کے لیے ایک نجی چینل سے بھی وابستہ رہے جہاں سکرپٹ ڈیپارٹمنٹ ان کے پاس تھا۔ انہوں نے نہ صرف اعلیٰ درجے کے سکرپٹ لکھے بلکہ کئی کامیاب پروگراموں میں پسِ پردہ آواز بھی ان کی تھی۔ ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ ’’ادب برائے ادب‘‘ اور ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ’’ادب برائے انسان‘‘ کے قائل ہیں۔
پھر ایک نقاد نے ان سے جب یہ کہا کہ اردو کے جدید افسانہ نگاروں نے زبان کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے تو انہوں نے سختی سے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے جدید افسانہ نگاروں نے زبان کو بگاڑا نہیں بلکہ اسے نئی جہتوں اور زاویوں سے نوازا ہے۔ ڈاکٹر انور سجاد ایک شفیق اور دردمند دل رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے اپنے کلینک میں نادار مریضوں کا مفت علاج کیا۔ وہ ایک بہت اچھے میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ ان کے والد ڈاکٹر دلاور بھی علاقے کی مشہور شخصیت تھے۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیا ایک انسان اتنی جہتوں کا مالک ہو سکتا ہے؟ وہ بلا کے ذہین تھے اور وسیع المطالعہ بھی۔ یسے کثیرالجہات لوگ کہاں روز روز پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سجاد طویل عرصہ بیمار رہے۔ چھ جون 2019ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور وہ 84 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ یقینِ کامل ہے کہ انہوں نے عمر بھر جتنا کام کیا وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
0 Comments