کہنے کو تو گزرے کئی طوفان بھی سر سے
کہنے کو تو گزرے کئی طوفان بھی سر سے
ہم لوگ مگر شہر میں رونے کو بھی ترسے
لفظوں کے غلافوں میں چھپاؤں اسے کب تک
بجلی ہے تو ٹوٹے، کوئی بادل ہے تو برسے
لشکر مہ و انجم کا کہاں دفن ہوا ہے
فرصت ہو تو پوچھو کبھی گلنار سحر سے
اِک پل کو رکا دیدۂ پرنم تو میں سمجھا
جیسے پلٹ آیا ہو سمندر کے سفر سے
کچھ دیر ٹھہر جا ابھی اے موج تلاطم
ٹوٹی ہوئی کشتی کو الجھنے دے بھنور سے
اس جنس کا گاہک کوئی ملتا نہیں ورنہ
اِس دور میں سستا ہے بشر، لعل و گہر سے
ہمسائے کے گھر کون مقید تھا کہ شب بھر
رہ رہ کے ہوا سر کو پٹختی رہی در سے
ان تیز ہواؤں میں کہاں جاؤ گے محسن
راتوں کو تو پاگل بھی نکلتے نہیں گھر سے
محسن نقوی
0 Comments