انیسویں اور بیسویں صدی کے آغاز میں اردو شاعری کا اپنا ایک مزاج تھا۔ اسے کلاسیکل شاعری کہا جاتا ہے۔ اس میں موضوعات کے حوالے سے داخلیت کو زیادہ ترجیح دی جاتی تھی۔ رومانوی اشعار سے غزلیات کو مزین کیا جاتا تھا اور انہی اشعار کو ندرتِ خیال کی کسوٹی پر پرکھا جاتا تھا۔ معروضی صورتِ حال کی جھلکیاں کم ہی ملتی تھیں۔ اخلاقیات پر بھی بہت زور دیا جاتا تھا۔ البتہ شاعری کا ایک بنیادی وصف جسے شعری طرزِ احساس کہا جاتا تھا، بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔ رعایتِ لفظی اور نکتہ آفرینی بھی ملتی تھی اور مرزا اسداللہ خان غالب کے ہاں تو یہ اوصاف اوجِ کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔
اس زمانے میں اردو ادب کے دو دبستان بڑے مشہور تھے، ایک لکھنوی دبستان اور دوسرا دہلی دبستان۔ آرزو لکھنوی کا پورا نام انور حسین آرزو لکھنوی تھا۔ وہ 1873ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ وہ دبستانِ لکھنؤ کے ایک اہم نمائندے تھے۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی سادگی اور سلاست ہے۔ ان کے بھائی میر یوسف حسین اور والد میر ذاکر حسین بھی شاعر تھے۔ لیکن آرزو لکھنوی کا شعری اسلوب ان دونوں سے جدا تھا۔ اپنے والد کی طرح وہ بھی جلال لکھنوی کے شاگرد تھے۔ اپنی شاعری کے حوالے سے انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ میر اور غالب کے اثرات سے بچ نہیں سکے لیکن اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ ان سے مختلف کام کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے ہم عصروں، جن میں داغ دہلوی بھی شامل تھے، سے بھی کچھ الگ نظر آنا چاہتے تھے۔
اپنے شعری مجموعے ’’سنہری بانسری‘‘ کے افتتاحی صفحات پر وہ لکھتے ہیں ’’جس نے بنائی بانسری، گیت اسی کے گائے جا، سانس جب تک آئے جائے، ایک ہی دھن بجائے جا‘‘۔ محبت اور حسن و جمال کے معاملات پر بھی وہ ایک نئے زاویے کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔
دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر
اور یہ شعر بھی توجہ طلب ہے۔
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے ہے جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا، ٹوٹ کے برسا پانی
انہوں 25 ہزار غزلیں لکھیں اور سات دیوان مرتب کیے، جن میں سب سے زیادہ مشہور ’’فروغِ آرزو، جانِ آرزو اور نشانِ آرزو‘‘ ہیں۔ انہیں علامہ کا خطاب بھی دیا گیا۔ آرزو لکھنوی نے ابتدائی تعلیم گھر ہی میں حاصل کی تھی۔ بعد میں انہوں نے لکھنؤ کے مشہور علما سے عربی اور فارسی سیکھی۔ 12 برس کی عمر میں انہوں نے مرثیہ لکھا اور یہیں سے ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔ وہ 1942ء میں ممبئی چلے گئے تھے۔ بعد میں کراچی میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے کچھ ڈرامے بھی لکھے اور شاعری کی دوسری اصناف میں بھی طبع آزمائی کی لیکن انہیں زیادہ شہرت غزلوں کی وجہ سے ملی۔ ہم ذیل میں آرزو لکھنوی کی غزلیات کے چند اشعار اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں۔
آنے میں جھجک، ملنے میں حیا، تم اور کہیں ہم اور کہیں
اب عہدِ وفا ٹوٹا کہ رہا، تم اور کہیں ہم اور کہیں
اے جذبہ محبت تو ہی بتا کیونکر نہ اثر لے
دل ہی تو ہے سیدھی بھی چھری، ٹیڑھی بھی چھری،
دلدوز نظر قاتل ہی تو ہے رسمیں اس اندھیر نگری کی
نئی نہیں یہ پرانی ہیں مہر پہ ڈالو رات کا پردہ
ماہ کو روشن رہنے دو ہر سانس ہے اک نغمہ،
ہر نغمہ ہے مستانہ کس درجہ دُکھے دل کا
رنگین ہے فسانہ آن رکھ لی تری شمشیر ادا کی
یوں بھی جن کو مرنا نہیں آتا تھا وہ بسمل تو ہوئے
آرزو لکھنوی 1951ء میں عالم جاوداں کو سدھار گئے۔ انہوں نے بے پناہ کام کیا جو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔