Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

عبدالحمید عدمؔ - وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

عبد الحمید عدمؔ نے جس عہد میں اپنی شاعری کا آغاز کیا ،اُس دَور میں اُردو شاعری کے آسمان پر اخترؔ شیرانی ، جوشؔ ملیح آبادی اور حفیظ ؔجالندھری جیسے روشن ستارے جگمگا تے تھے۔ عدمؔ نے بھی اُن کی راہ پر چلتے ہوئے صرف رومانوی شاعری کی اور بے حد مقبول ہوئے۔ اُن کی شاعری عام فہم، بیان سیدھا سادہ اور الفاظ عام ہوتے تھے ۔ اس لیے اُن کی بات دل پر اثر کرتی اور ایسی شاعری کو اُردو ادب کی اصطلاح میں سہلِ ممتنع کہا جاتا ہے ۔ 

عبدالحمیدعدم ؔ کی حیات میں قریباً تمام گلو کاروں نے اُن کی غزلوں کو اپنی آواز دی تھی چوں کہ جلسوں میں گلو کاروں کے ذریعہ جو غزلیں گائی جاتی ہیں، اُن کا مقصد سامعین کو محظوظ کرنا ہوتا ہے اور سامع اُنھی اشعار سے محظوظ ہوتا ہے، جو اُن کے ذہن کو چھو سکیںاور ایسے اشعار کا آسان ہو نا ضروری ہے ۔ عدمؔ کی غزلیں اس معیار پر پوری اُترتی ہیں۔عدمؔ 10 اپریل 1910ء کو گوجرانوالہ کے ایک گاؤں تلونڈی موسیٰ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ لاہور سے میٹرک پاس کیا۔ 

پھر پرائیویٹ طور پر ایف اے کیا اور ملٹری اکاونٹس میں ملازم ہو گئے۔ 1939ء میں دس سال ملازمت کرنے کے بعد عراق چلے گئے۔ وہاں جا کر ایک عراقی خاتون سے شادی کر لی۔1941ء میں واپس آگئے اور ایس اے ایس کا امتحان امتیازی پوزیشن میں پاس کیااور دوبارہ ملٹری اکاونٹس میں ملازمت پر بحال ہوگئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اُن کا تبادلہ راولپنڈی کر دیا گیا اور اپریل 1966ء میں اس عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔

 عدمؔ نے ریٹائرمنٹ کے بعد یعسوب کو اپنا اُوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب اُن کے پاس پیسے ختم ہو جایا کرتے تھے، تو وہ جلدی جلدی غزلیں لکھ کر اپنے پبلشر کو دے کر اُس سے ایڈوانس معاوضہ لے آتے تھے۔ اُن کی اکثر شاعری اسی طرح سے لکھی گئی تاہم جو غزلیں عدم ؔنے اپنے لیے لکھی ہیں ۔اُن میں اُن کا مخصوص انداز جھلکتا ہے، جس میں ہلکا ہلکا سوز بھی ہے اور عشق و محبت کی دھیمی دھیمی آنچ بھی۔ عدمؔ نے اپنی شاعری میں روایتی موضوعات، خم و گیسو، گل و بلبل، شمع و پروانہ، شیشہ وسنگ کا استعمال ہی کیا تاہم کوئی نیا پن نہ ہونے کے باوجود اُن کی شاعری سامع کو نیا ذائقہ ضرور دیتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ عدمؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے روایتی غزل کو مزید آب دار کیا ۔

عدمؔ بہت پرگو اور زُود گو شاعر تھے۔اُن کے درجنوں شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جن میں :خرابات، نگار خانہ،چارہ درد اور رم آہو وغیرہ زیادہ معروف ہیں۔اُنھوں نے 1960ء میں عمر خیام کی رباعیات کا اُردو زبان میں ترجمے کا کام بھی کیا، جسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ خیام اور عدمؔ کا فلسفہ زندگی اور شاعری کا انداز ملتا جلتا ہے۔یہاں بطورِ نمونہ اُن کی چند رباعیاں پیش ِ خدمت ہیں: سلسلہ تیری میری باتوں کا پسِ پردہ ہے جو بھی جاری ہے پردہ اُٹھا تو آگہی ہو گی پردہ داری ہی پردہ داری ہے …………… زمانہ ہنستا ہے ہم بے نوا فقیروں پر یہ غفلتیں تو مناسب نہیں غریب نواز وہ زلف ویسے تو آتش ہے اے عدمؔ یکسر مگر اثر کی رعایت سے ہے نسیمِ حجاز …………… ہنس کے آپ جھوٹ بولتے ہیں دل میں کتنی مٹھاس گھولتے ہیں دنیا کتنی حسین لگتی ہے آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں عدمؔ کی شخصیت کے حوالے سے بات کی جائے ،تو وہ کوئی شاعرانہ شکل وصورت کے انسان نہ تھے بل کہ بھاری تن و توش کے مالک تھے۔ایک بار بھارت سے مجازؔ لکھنوی تشریف لائے، اُنھوں نے پہلے عدمؔ کو نہیں دیکھا تھا، لیکن اُن کی شاعری کے بہت مداح تھے۔ 

جب اُن کا تعارف کروایا گیا، تو بے اختیار اُن کے منہ سے نکلا: اگر یہی ہے ’’عدم‘‘ تو وجود کیا ہو گا؟ اُردو زبان کے اس رومانوی شاعر نے چار نومبر1981ء میں وفات پائی اور قبرستان ڈرائی پورٹ مغل پورہ، لاہور کے صدر دروازے کے پاس دفن ہوئے۔آخر میں اُن کی ایک شہرۂ آفاق غزل پیش ِ خدمت ہے، جس کو طاہرہ سید نے بھی اپنی خوبصورت آواز میں گایا ہے : وہ باتیں تری وہ فسانے ترے شگفتہ شگفتہ بہانے ترے بس ایک داغِ سجدہ مری کائنات جبینیں تری، آستانے ترے بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا، بہاریں تری آشیانے ترے فقیروں کی جھولی نہ ہو گی تہی ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم برے یا بھلے، سب زمانے ترے عدمؔ بھی ہے تیرا حکایت کدہ کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے   

محمدکاظم

Post a Comment

0 Comments