Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ڈگریاں بڑی نعمت ہیں : ابنِ انشا

لاہور کے ایک اخبار میں وکیل صاحب کے متعلق یہ خبر مشتہر ہوئی کہ کوئی ظالم ان کا سرمایہ علم و فضل اور دولتِ صبر و قرار اور آلات کاروبار لوٹ لے گیا ہے۔ تفصیل مال مسروقہ کہ یہ ہے، ایک ڈگری بی اے کی۔ ایک ایل ایل بی کی۔ ایک کیریکٹر سرٹیفکیٹ بدیں مضمون کہ حامل سرٹیفکیٹ ہذا کبھی جیل نہیں گیا۔ اس پر ہر قسم کے مقدمے چلے۔ لیکن یہ ہمیشہ بری ہوا۔ الماری کا تالا توڑ کر یہ سرٹیفکیٹ لے گئے ہوں یا یہ سہواً خود ان کے پاس چلے گئے ہوں۔ وہ براہِ کرم واپس کر دیں۔ ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اگر کوئی اور صاحب اس نابکار چور کر پکڑ کر لائیں تو خرچہ آمد و رفت پیش کیا جائے گا۔ حلیہ یہ ہے۔ چور کا نہیں، سرٹیفکیٹوں کا کہ ان پر بندے کا نام لکھا ہے۔ 

گلشن علی سمرقندی، سابق سوداگر شکرقندی۔ مقیم گوالمنڈی۔ بعض کم فہم ظاہر بین کہیں گے کہ ڈگری سے کیا ہوتا ہے، وکیل صاحب۔ شوق سے کاروبار جاری رکھیں۔ وکالت علم و عقل بلکہ زبان سے کی جاتی ہے۔ ڈگری کوئی تعویذ تھوڑا ہی ہے کہ جس کے بازو پر باندھا وہ گونگا بھی ہے تو پٹ پٹ بولنے لگا۔ فصاحت کے بتاشے گھولنے لگا۔ لیکن ہماری سنیے تو ڈگری اور عہدہ دونوں کام کی چیزیں ہیں۔ بلکہ علم اور لیاقت کا نعم البدل ہیں… آپ نے منصب دار لوگوں کو دیکھا ہو گا کہ بظاہر بے علم معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن وقت آنے پر ادب اور آرٹ کے اسرارو رموز پر ایسی مدبرانہ گفتگو کرتے ہیں کہ وانا اندرآں حیراں بماند۔ جتنا بڑا عہدیدار ہو گا اتنی ہی اونچی بات کرے گا۔

نیچے والوں کو خاطر میں نہ لائے گا۔ ڈگری کو بھی ہم نے اسی طرح لوگوں کے سر چڑھ کر بولتے دیکھا۔ ایک ہمارے مہربان ہیں۔ اردو زبان و ادب کے پروفیسر۔ ایک روز دست نگر کو دستِ نگر پڑھ رہے تھے۔ اور ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ بول رہے تھے۔ ہم نے بڑے ادب سے ٹوکا لیکن وہ بپھر گئے اور پوچھنے لگے۔ کتنا پڑھے لکھے ہو تم؟ ہم نے کہا کچھ بھی نہیں بس حرف شناس ہیں۔ الف بے آتی ہے۔ بیس تک گن بھی لیتے ہیں۔ اس پر وہ اندر سے دو فریم شدہ چوکٹھے اٹھا لائے۔ ان پر ایک ڈگری ایم اے کی تھی۔ دوسری پی ایچ ڈی کی۔ بولے اب کہو تمہارا کہا سند ہے یا ہمارا فرمایا۔ اس دن پہلی بار ہمیں اپنی غلطی معلوم ہوئی۔ اب ہم بھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن والوں کی طرح دستِ نگر، چشم دید، دم زدن اور استفادہ حاصل کرتے ہی بولتے اور لکھتے ہیں۔

ڈگری اور سرٹیفکیٹ کا چلن پرانے زمانے میں اتنا نہ تھا جیسا آج کل ہے۔ اس زمانے کے لوگ بیمار بھی سرٹیفکیٹ کے بغیر ہو جایا کرتے تھے۔ اور بعض اوقات تو شدت مرض سے مر بھی جایا کرتے تھے۔ اب کسی کی علالت کو، خواہ سامنے پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہو، بلا سرٹیفکیٹ کے ماننا قانون کے خلاف ہے۔ پرانے زمانے میں لوگوں کے اخلاق بھی بلا سرٹیفکیٹ کے شائستہ ہوا کرتے تھے۔ اب جس کے پاس کیریکٹر سرٹیفکیٹ نہیں سمجھو کہ اس کا کچھ اخلاق نہیں۔ اس کی نیک چلنی مشتبہ۔ اب تو مرنے جینے کا انحصار بھی سرٹیفکیٹ پر ہے۔ سانس کی آمد و شد پر نہیں۔

ابنِ انشا


 

Post a Comment

0 Comments