Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

پابلو پکاسو کا فنی سفر

پابلو پکاسو بیسوی صدی کا مشہور اور بڑا مصور تھا۔ وہ 1881ء میں ملاگا، سپین
میں ایک آرٹ استاد کے ہاں پیدا ہوا۔ بچپن ہی سے وہ غیر معمولی ذہین تھا۔ بچپن میں اس کی بہن کے انتقال نے پکاسو کو بہت افسردہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد اس کا خاندان بارسلونا منتقل ہو گیا۔ وہاں فرانس اور شمالی یورپ سے آرٹ کے نئے تصورات آنا شروع ہو گئے تھے۔ کم عمری ہی میں کارکردگی کی بنیاد پر اسے ایک اکیڈمی میں داخلہ مل گیا۔ اس کے والد نے گھر کے قریب ایک کمرہ کرائے پر لے کر دیا تاکہ وہ اپنا کام سکون سے کر سکے۔ والد دن میں کئی بار نگرانی کی خاطر وہاں کا دورہ کرتا۔ 1900ء میں وہ مختصر مدت کے لیے پیرس گیا۔ وہاں کا ماحول اسے بے حد پسند آیا۔ 1901ء میں وہ پھر پیرس آیا۔ اب اس کی تصویروں میں لاترک، گاگان، وان گاگ اور تاثریت کے دوسرے فنکاروں کا رنگ صاف جھلکنے لگا تھا۔ جتنے رنگ وہ استعمال کرتا تھا ان میں گہرا نیلا رنگ بہت حاوی نظر آتا تھا۔

اس زمانے میں اس نے پیرس کی غریب گندی بستیوں، فقیروں، جسم فروشوں، بیمار بچوں، غریب اور بھوکے لوگوں کی تصویریں بنائیں۔ 1907ء میں پکاسو کی ملاقات براک سے ہوئی۔ دونوں آرائشی اور گہرے رنگوں کے خلاف تھے اور دونوں کسی ایسے طریقے کی تلاش میں تھے کہ حجم اور اس کے آپسی رشتے کو اس طرح پیش کیا جائے کہ تصویر کی چپٹی سطح متاثر نہ ہو۔ دونوں نے مل کر ایک طرز ایجاد کی جسے تجزیاتی مکعبیت یا انالیٹکل کیوبزم کہا جاتا ہے۔ 1912ء تک پکاسو کی تصویروں میں رنگ پھر جھلکنے لگے تھے۔ اس نے کولاز کی ابتدا کی یعنی لکڑیوں، تار، کاغذ، رسی وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر کینوس پر جمائے جاتے اور پھر ان میں رنگ بھر کر ایک باقاعدہ تصویر کی شکل دی جاتی۔ تصویر ایک ہی سطح پر ہوتی لیکن اس سے کئی سطحوں کا تصور پیدا کیا جاتا۔ 

پکاسو نے اسے شروع ضرور کیا لیکن اسے اور آگے بڑھانے میں حصہ نہیں لیا۔ 1914ء میں جب پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو براک اور پکاسو میں اختلافات ہو گئے۔ دونوں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ 1915ء سے پکاسو نے اِنگر کی ڈرائنگ میں دلچسپی دکھلانی شروع کی۔ 1917ء میں روسی بیلے کا ایک ٹرپ روم آیا۔ اس سے متاثر ہو کر اس نے قدیم روایتی طرز کی طرف رخ کیا۔ ساتھ ہی مکعبی سٹائل کی بہت اعلیٰ تصویریں بنائیں۔ اس کے بعد قدیم آرٹ اور روم کی کلاسیکیت کے زیراثر عورتوں کی تصویریں اور خاکے بنائے۔ ان تصویروں کی رنگ آمیزی کی شدت دیکھنے کے قابل ہے۔ اسی زمانے میں اس نے بیلوں کی لڑائی کی بھی کئی تصویریں بنائیں۔ پہلے اس نے انہیں بالکل ساکن دکھلایا لیکن 1936ء سے ان تصویروں میں زبردست حرکت دکھائی۔ اس کے بعد اگلے دس سال تک پکاسو اپنے فن پر اسی ڈھنگ سے کام کرتا رہا۔

یورپ میں فاشزم کے عروج اور خاص طور پر سپین میں ہٹلر اور مسولینی کی مدد سے فاشسٹ فرانکو کے برسراقتدار آنے سے پکاسو کو سیاست سے بھی دلچسپی ہو گئی۔ وہ فاشزم کے خلاف تھا۔ اور سپین کی فاشزم مخالف جمہوری طاقتوں کے ساتھ تھا۔ جب فرانکو کو کامیابی ہوئی تو پکاسو فرانس چلا آیا اور عہد کیا کہ وہ فرانس اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک وہاں فاشزم ختم نہ ہو جائے۔ 1937 میں اس نے اپنی معرکہ آرا تصویر ’’گورنیکا‘‘ بنائی جس میں کٹے سر والے بیل اور کٹے ہاتھ اور کٹے پیر کی شکل کے ذریعے فاشزم اور جنگ کی بربریت اور تباہ کاریوں کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ احساس کی شدت دیکھنے کے قابل ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دور کے احساس کی شدت اس کے کام میں پوری طرح نظر آتی ہے۔ 

جنگ کے زمانے میں وہ پیرس میں رہا۔ خفیہ طور پر ہٹلر کی مخالف طاقتوں کی مدد کرتا رہا۔ وہ فاشزم کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گیا۔ 1946 کے بعد وہ جنوبی فرانس میں رہا اور بائیں بازو کی تحریکوں خاص طور پر کمیونسٹ تحریک سے قریبی طور تعلق پیدا کر لیا۔ امن تحریک کے لیے اس نے کئی پوسٹر اور امن کی فاختائیں بنائیں اور اس کا باقاعدہ رکن رہا۔ اسی زمانے میں اس نے کوزہ گری پر بھی کئی تجربے کیے اور پیرس میں یونیسکو کے دفتر کے لیے ایک بہت بڑی دیواری تصویر (مورال) بنائی۔ آرٹ کے بیشتر نقادوں میں یہ رائے ہے کہ مائیکل انجیلو اور برنینی کے بعد اتنا بڑا اور کوئی فن کار پیدا نہیں ہوا جس نے آرٹ کے پورے رخ کو بدل دیا ہو۔ پکاسو نے سیکڑوں تصویریں اور خاکے بنائے۔ اس کی تصویروں کی مانگ آج بھی بہت زیادہ ہے اور وہ دنیا میں بڑی اور مشہور گیلریوں میں موجود ہیں۔

محمد ریاض


 

Post a Comment

0 Comments