Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کب تلک شب کے اندھیرے میں شہر کو ترسے

کب تلک شب کے اندھیرے میں شہر کو ترسے
وہ مسافر جو بھرے شہر میں گھر کو ترسے

آنکھ ٹھہرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے
دل وہ راہرُو کہ سمندر کے سفر کو ترسے

مجھ کو اس قحط کے موسم سے بچا ربِ سخن
جب کوئی اہلِ ہُنر عرضِ ہُنر کو ترسے

اب کے اس طور مسلط ہوا اندھیرا ہر سُو
ہجر کی رات میرے دیدہء تر کو ترسے

عمر اتنی تو میرے فن کو عطا کر خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

اس کو پا کر بھی اسے ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
جیسے پانی میں کوئی سیپ گُہر کو ترسے

ناشناسائی کے موسم کا اثر تو دیکھو
آئینہ خال و خدِ آئینہ گر کو ترسے

ایک دنیا ہے کہ بستی ہے تری آنکھوں میں
وہ تو ہم تھے جو تری ایک نظر کو ترسے

شورِ صرصر میں جو سر سبز رہی ہے محسن
موسمِ گُل میں وہی شاخ ثمر کو ترسے

 محسن نقوی
 

Post a Comment

0 Comments