Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

محسن نقوی : میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند

جدید طرز احساس کا ذکر ہو تو کئی شعرا کے نام سامنے آجاتے ہیں۔ اس قسم کی شاعری کا آغاز 60 کی دہائی میں ہوا۔ بہت سے شعرا نے روایت سے بغاوت کر کے ایک نئی طرز کی شاعری کو اپنایا۔ اس میں ایک تو زبان کے حوالے سے نئے تجربے تھے اور دوسرے نفسِ مضمون کو بھی نئے رنگ اور اسلوب میں ڈھالا گیا۔ جدید خیالات‘ محاوروں اور تراکیب سے مزین شاعری کا ذائقہ سب سے جدا تھا۔ وہ شعرا جنہوں نے غزل کو نیا لہجہ اور نیا مزاج عطا کیا ان میں ظفر اقبال‘ مجید امجد‘ صابر ظفر‘ عبیداللہ علیم‘ خالد احمد‘ عدیم ہاشمی‘ اقبال ساجد اور محسن نقوی کے نام سرفہرست ہیں۔ محسن نقوی کا شعری اسلوب جداگانہ بھی ہے اور اس میں تخیل کی اڑان بھی ہے۔

وہ ایک مقبول شاعر تھے اور ان کے غزل پڑھنے کا انداز بھی دلکش تھا۔ ان کی غزلوں کے بعض اشعار تو اتنے اچھوتے ہیں کہ قاری پر سحر طاری ہو جاتا ہے۔ محسن نقوی کا پورا نام سید غلام عباس نقوی تھا۔ وہ 5 مئی 1947 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ وہ چھ بہن بھائی تھے۔ محسن نقوی نے گورنمنٹ کالج ملتان سے گریجوایشن کی اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں ’’شاعر اہل بیت‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ان کی شاعری کی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔ نقوی کی شاعری میں رومانس بھی ملتا ہے اور معروضی صورتحال کا بھی بڑا جامع ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے ایک فلم کیلئے گیت لکھا ’’لہروں کی طرح تجھ کو مرنے نہیں دیں گے‘‘ اس گیت کے لئے انہیں ایوارڈ بھی ملا۔ 

انہوں نے ایک دعا بھی لکھی جو بڑی مشہور ہوئی۔  محسن نقوی نے اپنی خوبصورت شاعری سے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ اپنے خیالات کو ایک نئے جذبے میں پرو کر وہ عجیب سماں باندھ دیتے تھے۔ ان کا شاعری کا ایک اور وصف ان کی صاف گوئی اور بے باکی ہے۔ انہوں نے جو کہنا ہوتا وہ لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیتے۔ محسن نقوی نے طبقاتی تضادات سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی اپنے خوبصورت شعری اسلوب میں بیان کیا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ محسن نقوی جدید طرز احساس کے ساتھ شعری طرز احساس کا بھی بھرپور خیال رکھتے تھے۔

اس حوالے سے وہ جمالیاتی طرز احساس کو بھی شاعری کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’عذاب دید‘ خیمہ جاں‘ برگ صحرا‘ بند قبا‘ موج ادراک‘ طلوع اشک‘ فرات فکر‘ ریزہ حرف‘ رخت شب‘ ردائے خواب اور حق ایلیا‘‘ شامل ہیں۔ اگر زندگی نے ان سے وفا کی ہوتی تو ان شعری کلیات کی تعداد اور بھی زیادہ ہوتی۔ محسن نقوی ایک حساس آدمی تھے اس لئے ان کی شاعری میں جابجا عصری کرب کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ عصری کرب ہر شاعر محسوس کرتا ہے اور اگر وہ اپنی شاعری میں اسے ارادتاً نظر انداز کرتا ہے تو یہ بد دیانتی ہے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر وہ فلمی نغمہ نگاری کی طرف آتے تو اس میدان میں بھی اپنے فن کے جھنڈے گاڑ دیتے۔ 

اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے جس قسم کی رومانوی شاعری کی‘ اس کی کئی پرتیں تھیں۔ وہ رومانوی موضوعات میں بھی یکسانیت کا شکار نہیں تھے اور اس حوالے سے ان کی فکر اپنے زاویے بدلتی رہتی تھی۔ ایسے اوصاف رکھنے والا شاعر ایک عمدہ گیت نگار بن سکتا ہے۔ لیکن شاید انہوں نے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے بڑی متاثر کن نظمیں بھی تخلیق کیں لیکن ان کی اصل شہرت غزلوں کی وجہ سے ہے۔ محسن نقوی بیتے ہوئے واقعات کو یہ کہہ کر رد نہیں کرتے تھے کہ ایسا تو ہوتا رہتا ہے بلکہ وہ ان واقعات کے منطقی نتائج سے بھی باخبر رہتے ہیں۔ وہ مصلحت کوش نہیں اور نہ ہی سمجھوتے کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک سچے کھرے اور صاف آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو نعرے بازی بھی نہیں بننے دیا لیکن ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بھی بنے رہے۔ ہم ذیل میں محسن نقوی کی لاجواب شاعری قارئین کی نذر کرتے ہیں۔ 

جن کے آنگن میں غریبی کا شجر ہو محسنؔ

ان کی ہر بات زمانے کو بری لگتی ہے 

تڑپتا ہے‘سسکتا ہے‘ ترستا ہے مگر محسنؔ

اسے کہہ دو کسی کے ہجر میں مرتا نہیں 

کوئی مجھ سے ٹکراتے تھے دنیا کے حوادث 

لیکن میں تیری زلف نہیں تھا کہ پریشاں ہوتا 

اُس شخص سے ملنا میرا ممکن ہی نہیں ہے

 میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند 

راس آ ہی گیا ترک تعلق اسے آخر 

آنکھوں میں  وہ پہلی سی ندامت نہیں رکھتا 

وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے گا‘ چھوڑ جائے گا 

مجھے خبر تھی اسے یہ ہنر بھی آتا ہے

اسے خراج محبت ادا کروں گا ضرور

ذرا میں یاد تو کر لوں 

کوئی وفا اس کی شرم آتی ہے 

کہ دشمن کسے سمجھیں محسنؔ

دشمنی کے بھی تو معیار ہوا کرتے ہیں 

وہ ایک نادر روزگار شاعر تھے اور کمال کے انسان تھے۔ وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ محسن نقوی کے کلام سے چند انتخاب ملاحظہ کیجئے 

کہ اے فکر کم نشاں مری عظمت کو داد دے 

تسلیم کر رہا ہوں میں تیرے وجود کو

اے شور حرف و صوت مجھے بھی سلام کر 

توڑا ہے میں نے شہرِ غزل کے جمود کو 

اے وسعت جنوں مری جرأت پہ ناز کر 

میں نے بھلا دیا ہے رسوم و قیود کو  

سایۂ گُل سے بہر طور جُدا ہو جانا راس آیا

 نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا 

اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا

 میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا

موسمِ گُل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا 

قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رہا ہو جانا 

پہلے دیکھو تو سہی اپنے کرم کی وسعت 

پھر بڑے شوق سے تُم میرے خدا ہو جانا  

ہر شاخِ سربُریدہ نقیبِ بہار تھی 

فصلِ خزاں بھی اب کے بڑی با وقار تھی

ہر سنگ میل پر تھیں صلیبیں گڑی ہوئی 

شاید وہ رہ گذار تری راہ گذار تھی 

میں تیری آہٹوں پہ توجہ نہ کر سکا 

میری حیات وقفِ غمِ انتظار تھی

آخر سکوں ملا اُسے دشتِ نگاہ میں 

وہ آرزو جو دل میں غریب الدیار تھی 

مجھ کو تری قسم ، تری خوشبو کے ساتھ ساتھ 

میری صدا بھی دوشِ ہوا پر سوار تھی  

میں چُپ رہا کہ زہر یہی مجھ کو راس تھا 

وہ سنگِ لفظ پھینک کے کتنا اُداس تھا 

اکثر مری قبا پہ ہنسی آ گئی جسے 

کل مل گیا تو وہ بھی دریدہ لباس تھا 

میں ڈھونڈتا تھا دُور خلائوں میں ایک جسم 

چہروں کا اِک ہجوم مرے آس پاس تھا 

تم خوش تھے پتھروں کو خدا جان کے

 مگر مجھ کو یقین ہے وہ تمہارا قیاس تھا 

بخشا ہے جس نے روح کو زخموں کا پیرہن محسن 

وہ شخص کتنا طبیعت شناس تھا

عبدالحفیظ ظفر

Post a Comment

0 Comments