Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کاغذ کا پرزہ : یہ رقعہ کیا روپوں سے کم ہے؟ پطرس بخاری

خواجہ علی احمد شہر کے بڑے سوداگر تھے۔ لاکھوں کا کاروبار چلتا تھا۔ لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بچہ بچہ ان کی دیانت داری سے واقف تھا اور ہر شخص جانتا تھا کہ خواجہ علی احمد قول کے سچے اور بات کے پکے ہیں۔ ایک دن انہوں نے اپنے ایک آدمی کو جوتے والے کی دکان سے جوتا خریدنے بھیجا۔ جوتے کی قیمت بیس روپے تھی لیکن بجائے اس کے کہ خواجہ علی احمد اپنے نوکر کو بیس روپے دے کر بھیجتے، انہوں نے نوکر کے ہاتھ کریم خاں جوتے والے کے نام ایک رقعہ لکھا: ’’میاں کریم خاں! مہربانی کر کے ہمارے آدمی کو بیس روپے کا ایک جوتا دے دو، ہمارا یہ رقعہ اپنے پاس سنبھال کے رکھ چھوڑو۔ جب تمہارا دل چاہے، یہ رقعہ آکے ہم کو یا ہمارے منشی کو دکھا دینا اور بیس روپے لے جانا۔ 

یہ رقعہ اگر تم کسی اور شخص کو دینا چاہو تو بیشک دے دو، جو ہمارے پاس لائے گا ہم اس کو بیس روپے دے دیں گے۔ راقم خواجہ علی احمد‘‘۔ دکان دار نے جب رقعے کے نیچے خواجہ علی احمد کے دستخط دیکھے تو اسے اطمینان ہوا۔ جانتا تھا کہ خواجہ صاحب مکرنے والے آدمی نہیں اور پھر لاکھوں کے آدمی ہیں۔ روپے نہیں بھیجے تو نہ سہی۔ یہ رقعہ کیا روپوں سے کم ہے؟ جب چاہوں گا، رقعہ جا کر دے دوں گا اور روپیہ لے لوں گا، چنانچہ اس نے بغیر تامل کے جوتا بھیج دیا۔ تھوڑی دیر بعد کریم خاں دکان دار کے پاس عبد اللہ حلوائی آیا اور کہنے لگا۔ ’’میاں کریم خاں! میرے تمہارے طرف پچیس روپے نکلتے ہیں۔ ادا کر دو تو تمہاری مہربانی ہو گی۔ کریم خاں نے کہا۔ ’’ابھی لو۔ یہ پانچ تو نقد لے لو۔ باقی بیس روپے مجھے خواجہ علی احمد سے لینے ہیں یہ دیکھو، ان کا رقعہ ذرا ٹھہر جاؤ، تو میں جا کے ان سے بیس روپے لے آؤں۔ 

عبد اللہ بھی خواجہ علی احمد کو اچھی طرح جانتا تھا کیونکہ شہر بھر میں خواجہ صاحب کی ساکھ قائم تھی کہنے لگے۔ تم یہ رقعہ مجھے ہی کیوں نہ دے دو میں ان سے بیس روپے لے آؤں گا کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ ’’جو شخص یہ رقعہ لائے گا اس کو بیس روپے دے دیئے جائیں گے‘‘۔ کریم خان نے کہا۔ ’’یونہی سہی‘‘۔ چنانچہ عبد اللہ حلوائی نے بیس روپے کے بدلے وہ رقعہ قبول کر لیا۔ کئی دنوں تک یہ رقعہ یونہی ایک دوسرے کے ہاتھ میں پہنچ کر شہر بھر میں گھومتا رہا۔ خواجہ علی احمد پر لوگوں کو اس قدر اعتبار تھا کہ ہر ایک اسی رقعے کو بیس روپے کے بجائے لینا قبول کر لیتا کیونکہ ہر شخص جانتا تھا کہ جب چاہوں گا اسے خواجہ صاحب کے منشی کے پاس لے جاؤں گا اور وہاں سے بیس روپے وصول کر لوں گا۔ 

ہوتے ہوتے یہ رقعہ ایک ایسے شخص کے پاس پہنچ گیا جس کا بھائی کسی دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ یہ شخص اپنے بھائی کو منی آرڈر کے ذریعے بیس روپے بھیجنا چاہتا تھا۔ ڈاک خانے والوں نے اس رقعہ کو بیس روپے کے عوض میں لینا قبول نہ کیا۔ چنانچہ وہ شخص سیدھا خواجہ علی احمد کی کوٹھی پر پہنچا۔ رقعہ منشی کو دیا۔ منشی نے بیس روپے کھن کھن گن دیئے۔ اس نے روپے جا کر ڈاک خانے والوں کو دیئے اور انہوں نے آگے اس کے بھائی کو بھیج دیئے۔ اس مثال سے یہ ظاہر ہوا کہ محض ایک کاغذ کا پرزہ کتنی مدت تک روپے کا کام دیتا رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کاغذ کے نیچے ایک ایسے شخص کے دستخط تھے جس کی دیانت داری پر سب کو بھروسہ تھا۔ اور جس کی دولت کا سب کو علم تھا۔

سب جانتے تھے کہ یہ شخص جب چاہے بیس روپے ادا کر سکتا ہے اور قول کا اتنا پکا کہ کبھی ادا کرنے سے انکار نہ کرے گا۔ اگر ایسے ہی ایک رقعے کے نیچے ہم یا تم دستخط کر دیتے تو کوئی بھی اسے روپے کے بدلے میں قبول نہ کرتا۔ اول تو ہمیں جانتا ہی کون ہے اور جو جانتا بھی ہے وہ کہے گا کہ ان کا کیا پتہ۔ آدمی نیک ، شریف اور دیانت دار سہی، لیکن خدا جانے ان کے پاس بیس روپے ہیں بھی یا نہیں؟ کیا معلوم یہ مانگنے جائیں اور وہاں کوڑی بھی نہ ہو۔ خواجہ احمد کا رقعہ گویا ایک قسم کا نوٹ تھا۔ سرکاری نوٹ بھی بالکل یہی چیز ہوتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ان کے نیچے سرکار کی طرف سے سرکاری خزانے کے ایک افسر کے دستخط ہوتے ہیں۔

پطرس بخاری

Post a Comment

0 Comments