Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

شہنشاہ جہانگیر کی علم دوستی

شاہان مغلیہ میں شہنشاہ جہانگیراپنی خوش مزاجی اور علمی ذوق کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اکبر بادشاہ کی وفات کے سات روز بعد سلیم تخت نشین ہوا۔ تاج پوشی آگرہ میں ہوئی۔ اس نے اپنا لقب نور الدین محمد جہانگیر بادشاہ غازی اختیار کیا۔ جہانگیر کو ذوق نفیس اس کی فطرت میں اور اعلیٰ صفات اپنے باپ اکبر اور دادا ہمایوں سے ورثہ میں ملی تھیں۔ اس کی خود نوشت ’’تزک جہانگیری‘‘ کے مطالعہ سے اس کے علمی و ادبی ذوق اور کتابوں سے والہانہ لگاؤ کا پتا چلتا ہے کہ جہانگیر اہل علم و ہنر کا سرپرست تھا۔ اس نے تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مدر سے قائم کیے اور موجود علمی مراکز کی مالی اعانت کی۔ اس کی علمی دلچسپی کی وجہ سے آگرہ شہر مرکز علوم اور علما فضلا کا مسکن بن گیا۔ 

جہانگیر نے نہ صرف اس عظیم شاہی کتب خانہ کو، جو ورثہ میں ملا تھا، قائم رکھا بلکہ اس میں اضافہ کیا اور تصویر خانہ بھی بنوایا۔ اس کے عہد میں مکتوب خان کتب خانہ اور تصویر خانہ دونوں کا نگران تھا۔ شاہی کتب خانہ کے علاوہ جہانگیر کی ذاتی لائبریری بھی تھی۔ اس کو کتابوں سے الفت تھی اور اس نے خود جا کر علما کو کتابیں بطور تحفہ دیں۔ شاہی لائبریری کی دیکھ بھال کے لیے ’’ نقل نویس ‘‘سمیت بڑا عملہ موجود رہتا تھا۔ جہانگیر نے تزک کی بہت سی نقول تیار کیں اور عمائدین میں تقسیم کر دیں۔ 

شاہجہاں کو پہلی نقل پیش کی گئی۔ جہانگیر نے فن خطاطی اور کتابوں کو سونے چاندی کے کاموں سے خوبصورت بنانے میں خاصی دلچسپی لی۔ چنانچہ کتابوں کی جلد سازی اور سجاوٹ کیلئے بہت سے ماہر خطاط ،نقل نویس اور جلد کار دور دور سے بلوائے جاتے تھے۔ شہنشاہ نے عظیم خوش نویس شیخ فرید بخاری کو خلعت، جواہرات والی تلوار، قلم اور قلم دان سے نوازا ، میر بخشی کا خطاب عطا کیا۔ انھوں نے کہا، میں تمہیں صاحب سیف و قلم سمجھتا ہوں۔ بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں انتہائی مہذب اور کتابوں کی دلدادہ تھیں۔ ان کی ذاتی لائبریری تھی۔ انہوں نے تین سنہری مہریں دے کر دیوان کامران خریدا تھا۔ یہ نسخہ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں محفوظ ہے۔  

عبدالرشید

Post a Comment

0 Comments