Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

دل ہی تو ہے

میں دفتر میں اپنے ایک شاعر دوست کے ساتھ بیٹھا تھا کہ میرے دل میں شدید درد اٹھا۔ اسی درد کو بعد میں دل کے دورے کا نام دیا گیا۔ دفتری زبان میں دورے کے لفظ کو دل و جان سے پسند کیا جاتا ہے، لیکن دل کے دورے سے بڑے بڑے خوف کھاتے ہیں۔ بظاہر دو دوروں میں اتنا فرق ہونا تو نہیں چاہیے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہے۔ میرا خیال ہے اگر سرکار اپنے ان افسران کو جو دورے کے ہر دم متلاشی رہتے ہیں، یہ بتا دے کہ دورے کے ساتھ آپ کے دل کو بھی دورے پر بھیجا جائے گا تو مجھے یقین ہے کہ سرکاری خرچ میں لاکھوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ میں اپنے دل کے دورے کا ذمہ دار اپنے شاعر دوست کو نہیں ٹھہراتا کیونکہ وہ بے چارا تو مجھے وہی شعر سنا رہا تھا جو میں سینکڑوں بار پہلے سن چکا تھا اور میں اسے وہی داد دے رہا تھا جو پہلے کئی بار دے چکا تھا۔ 

مجھے اس سے شکایت ہے تو بس اتنی کہ جب میں نے اس سے ذکر کیا کہ میرے دل میں درد اٹھ رہا ہے تو بجائے مجھے ہسپتال لے جانے کے اس نے مجھے یہ کہہ کر تسلی دی کہ مرزا غالبؔ نے کہا ہے کہ ؎ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں اس دن مجھے احساس ہوا کہ اردو شاعروں نے سینکڑوں ایسے شعر کہہ رکھے ہیں جو بوقتِ ضرورت کام آنے کے بجائے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ایک چچا ایک اردو شعر ہی کی وجہ سے اپنی جان کھو چکے ہیں۔ جنگل میں ایک ندی میں نہاتے ہوئے انہوں نے ایک شیر کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا۔ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے کے بجائے وہ ایک طرف کو ہٹ گئے کیونکہ انہوں نے اردو شاعر کا یہ مصرع سن رکھا تھا کہ 

؎ شیر سیدھا تیرتا ہے وقتِ رفتن دیکھ کر

لیکن شیر کو اس مصرع کا علم نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے سیدھا تیرنے کے بجائے دائیں طرف رخ کیا اور چچا جان کو جا لیا۔ میری چچی نے اس شاعر پر ہرجانے کا مقدمہ درج کرنے کی سوچی تھی، لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ مقدمے کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ جب شاعر اور مظلومہ چچی خدا کی بخشی ہوئی زندگی گزار کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو جائیں گے، مقدمہ ابھی چل رہا ہو گا تو اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ میرا چپڑاسی شاعر نہیں تھا۔ اس نے فوراً ٹیکسی بلائی اور مجھے ہسپتال لے گیا۔ دو تین دن تو ہمارے بے ہوشی میں گزر گئے اور جب ہوش آیا تو بال بچوں کی فکر دامن گیر ہوئی۔ میں نے سوچا اگر دل کا دورہ مہلک ثابت ہوا تو ان کا کیا بنے گا۔ پھر خیال آیا کہ اگر مہلت بھی مل گئی تو ہم کون سا تیر مار لیں گے۔ 

پھر یہ خیال آنے سے جی خوش ہو گیا کہ سینکڑوں ایسے دوست ہیں، جن سے قرض لے کر بال بچوں اور بیوہ کے لیے ایک معقول رقم چھوڑی جا سکتی ہے۔ ہسپتال میں ایک مہینہ گزارنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرے دل کی رفتار کچھ نارمل سی ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر سے میں نے ذکر کیا کہ میں اپنے آپ کو تندرست محسوس کر رہا ہوں۔ اس نے پوچھا ’’آپ کو کیسے پتا؟ آپ ڈاکٹر ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’ڈاکٹر تو نہیں ہوں، لیکن کچھ دنوں سے نرسوں سے میری دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اس سے مجھے شک ہوا کہ روبہ صحت ہوں۔‘‘ وہ ہنسا اور ایک لمحہ کے لیے ڈاکٹر سے مزاح نگار بن گیا۔ کہنے لگا ’’آپ کو اتنا تو معلوم ہو گا کہ دیے کی لَو جب بجھنے کے قریب ہوتی ہے تو کچھ زیادہ بھڑکنے لگتی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہیں نرسوں میں میری دلچسپی ختم ہو گئی۔ 

جب میں ہسپتال میں داخل ہوا تو ڈاکٹر اور نرسیں جو مجھے نام سے پکارا کرتی تھیں کچھ دنوں کے بعد بھائی صاحب کہنے لگیں۔ کچھ دن اور گزرے تو مجھے انکل کہنے لگیں۔ میں حیران کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ایک دن آئینہ دیکھا تو حقیقت مجھ پر واضح ہو گئی ۔ خضاب میری عمر پر پردہ ڈالے ہوئے تھا۔ ہسپتال میں چونکہ خضاب کی سہولت مہیا نہیں تھی اس لیے میری عمر دن بہ دن بڑھ رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ ہسپتال کے لوگ مجھے بابا جی کہنے لگیں، یہاں سے کھسکنا چاہیے۔ 

دلیپ سنگھ

Post a Comment

0 Comments