Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

مشہورِ عالم ادیب اینڈرسن

اینڈرسن کا پورا نام ہانز کرسچین اینڈرسن تھا۔ وہ دو اپریل 1805ء کو اوڈنس (ڈنمارک) کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اوڈنس میں پیدا ہونے والا یہ غریب لڑکا ایک دن ساری دنیا میں نہ صرف مشہور ہو جائے گا بلکہ ہر طرف چاہا جائے گا۔ اینڈرسن نے ڈرامے، سفرنامے، ناول اور نظمیں بھی لکھیں لیکن اس کی شہرت طلسماتی کہانیوں کی وجہ سے ہے۔ اس کی کہانیاں صرف بچوں میں مقبول نہ تھیں بلکہ ہر عمر اور ملک کے افراد نے انہیں پسند کیا۔ اینڈرسن کا باپ ایک غریب موچی تھا، اینڈرسن کے بچپن ہی میں اس کے باپ کا انتقال ہو گیا اور بے چاری ماں کو اپنی اور اپنے بچے اینڈرسن کی پرورش کے لیے گھنٹوں اوڈنس کے چشموں میں کھڑے ہو کر لوگوں کے کپڑے دھونے پڑتے تھے۔

اینڈرسن بچپن ہی سے عجیب و غریب تھا۔ اسے چھوٹی عمر ہی سے مزے مزے کی کتابیں پڑھنے، ان کتابوں کی تصویریں دیکھنے اور چھوٹے چھوٹے ناٹک بنانے کا شوق تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے ناٹکوں کو خود ہی گاؤں میں کھیلتا تھا، خود ہی گاتا تھا اور سارے کردار خود ہی ادا کرتا تھا۔ بچپن میں اینڈرسن کا ہاتھ دیکھ  کر ایک بوڑھی عورت نے کہا تھا بیٹا تو اپنے گاؤں کا نام روشن کرے گا۔ ایک دن تیرے لیے یہ سارا گاؤں روشنیوں سے جگمگا اٹھے گا۔ چودہ برس کی عمر میں اینڈرسن نے اپنا گاؤں چھوڑ دیا اور روزگار کی تلاش میں سیدھا شہر کوپن ہیگن پہنچا۔ 

اینڈرسن نے یہاں پہنچ کر مختلف آرٹسٹوں سے ملاقات کی تاکہ وہ اس کا کام اور اس کے کھیل دیکھ کر اسے کوئی اچھا مقام دے سکیں۔ اینڈرسن ہمت ہارے والا لڑکا نہیں تھا۔ وہ دوسرے دن ہی سے کوپن ہیگن کے بڑے بڑے آرٹسٹوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ہر ایک سے اس نے اس بات کی خواہش کی کہ وہ اسے اسٹیج ایکٹر بننے میں مدد دیں۔ آہستہ آہستہ اسے چھوٹے چھوٹے کام ملنے لگے۔ ایک دن اینڈرسن کی التجا پر رائل تھیٹر کے ایک ڈائریکٹر نے اوڈنس کے بادشاہ کے دربار میں پہنچا دیا۔ بات چیت کے وقت بادشاہ نے سوچا کہ اس لڑکے کو پہلے اچھی تعلیم کی ضرورت ہے۔ بادشاہ نے اینڈرسن کو شاہی اسکول میں بھیج دیا۔ رائل تھیٹر کا ڈائریکٹر بھی سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکا ذہین ضرور ہے مگر اسے اچھی تعلیم کی ضرورت ہے۔ 

اینڈرسن سے پہلے وہ کئی لڑکوں کو شاہی اسکول میں اس طرح شریک کروا چکا تھا۔ اینڈرسن شاہی اسکول میں داخل ہو گیا مگر یہاں بھی وہ اپنی شوخی و شرارتیں نہ چھوڑ سکا۔ ایک دن جب اسکول کی کھڑکی کے پاس سے مویشیوں کا ریوڑ گزر رہا تھا تو اینڈرسن نے پکار کر کہا ’’ماسٹر صاحب ان بھائی بہنوں کو بھی تو کچھ پڑھائیے۔‘‘ ایک دن ایک بہت بڑے لمبے تڑنگے اسکول ٹیچر کو دیکھ کر اس نے کہا ’’ماسٹر صاحب آپ کے تو دو ٹیچر بن سکتے ہیں۔‘‘ ہر دفعہ بادشاہ کی وجہ سے بات آئی گئی ہو جاتی تھی۔ آخر 23 سال کی عمر میں اس نے اس اسکول کے سارے امتحان پاس کر لیے اور اسکول چھوڑ دیا۔ اپنی تعلیم کے زمانے میں وہ دن رات یہی سوچتا رہا کہ اسے کسی طرح شاعر اور ادیب بننا ہے اور ساتھ ساتھ اسے یہ بھی محسوس ہوتا رہا کہ شاعر اور ادیب بن کر اپنے آپ کو منوانا سخت مشکل ہے۔ 

اس میں مصیبتیں زیادہ اور آمدنی بہت کم ہے۔ دوسری طرف شہرت خود اس کی منتظر تھی۔ 1835ء میں جب وہ اٹلی سے واپس ہوا تو اس نے اپنا ایک چھوٹا سا ناول لکھا۔ ناول کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی کتاب پریوں کی کہانیوں کی بھی نکالی۔ اس کتاب کی ساری کہانیاں اس کی بچپن کی سنی ہوئی تھیں۔ دونوں کتابیں بے حد مشہور ہوئیں مگر پھر بھی سوال روپوں کا تھا جس کی اس کو بے حد ضرورت تھی۔ کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ اس کی شہرت تقریباً ساری دنیا میں پھیل گئی۔ اپنی بچپن میں سنی ہوئی کہانیوں کے ساتھ ساتھ خود اپنی طرف سے وہ نئی نئی کہانیاں لکھنے لگا اور بہت جلد ان کہانیوں کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہونے لگا۔ 10 سال کے عرصے میں وہ اس قدر مقبول ہو گیا کہ لوگ راستہ روک روک کر اسے اس کی کہانیوں پر مبارک باد دینے لگے۔ 

وہ کہتے کہ تم نہ صرف بچوں کا بلکہ ہمارا بھی دل بہلا رہے ہو۔ پھر اس نے ملک کے تمام علاقوں کا دورہ کیا۔ آسٹریا، فرانس اور انگلستان کی سیر کی۔ جگہ جگہ اس نے اپنے پرستار پائے۔ بے شمار بچوں نے اینڈرسن کو تحفے دیے۔ بزرگوں نے اسے اپنے گھر بلایا اور اس کی پیاری زبان سے اس کی کہانیاں سنیں۔ جب شہزادوں اور بڑے بڑے امیروں نے اس کی تعریف کی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھا۔ سخت محنت اور کوشش سے اس نے یہ مقام حاصل کیا تھا۔ چھوٹی سی عمر میں جو تجربے اس نے حاصل کیے تھے وہ ساری باتیں اس نے اپنی کہانیوں میں بیان کر دیں۔ اس لیے اس کی ساری کہانیاں نصیحتوں سے بھرپور ہیں۔ 

اینڈرسن اپنے آخری سانس تک بچوں کے لیے میٹھی زبان میں پیاری پیاری کہانیاں لکھتا رہا۔ 62 سال کی عمر میں اسے گاؤں کا سب سے ’’بڑا آدمی‘‘ کا اعزاز دیا گیا۔ یوں اس بوڑھی کی بات سچ ثابت ہوئی۔ اسے کہانیاں لکھنے اور سنانے کا ایسا شوق تھا کہ اس ڈر سے کہ اس کے اس فن کو نقصان نہ ہو، اس نے عمر بھر شادی نہیں کی اور نہ اپنا گھر بسایا۔ آخر 1875ء میں جب کہ اس کی عمر 70 سال ہو گئی تھی اس نے بستر پر لیٹ کر اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر لیں۔  

اظہر افسر

Post a Comment

0 Comments