اردو کے عظیم شاعر اسدا للہ خاں غالب 7 سال کے تھے جب والدین کا انتقال ہو گیا۔ 13 سال کی عمر میں شادی ہو گئی ، پھر کفالت کرنے والے چچا نصراللہ بیگ کا ارتحال اور اس کے بعد ایک اور ایسا مرحلہ آیا جس نے غالب کے پورے وجود کو ہی چکنا چور کر دیا۔ جس کی وجہ سے غالب اپنی شکست کی آواز بن کر رہ گئے۔ غالب کی سالانہ پنشن صرف ساڑھے 700 روپے تک محدود تھی۔ غالب کی تمام ذہنی اور معاشی مشکلوں کی جڑ یہی پنشن تھی جس کی واگزاری کے لیے وہ کلکتہ تک گئے، مقدمے لڑے ،مگر کامیابی نہیں ملی۔ معاشی پریشانی غالب کی زندگی کے لیے عذاب بن گئی ۔
جنگ آزادی کے بعد کے حالات نے غالب کے ذہنی سکون کو اور بھی ختم کر دیا۔انہیں احساس تھا کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے انگریز شدت پسندی کا مظاہرہ کریں گے ۔ انہوں نے اس جنگِ آزادی کے رخ کو محسوس کر لیا تھا کہ یہ معاشرتی آداب واطوار اور جینے کے سلیقے کو متاثر کرے گی۔ چنانچہ وہی ہوا جو غالب نے سوچا تھا۔ انگریزوں نے پوری قوم کو معاشی تنگدستی کا شکار کر کے اغنیا اور امرا کے ازواج و اولاد کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا، انہوں نے پورے معاشی نظام کو جکڑ دیا، تنگدستی اور مفلسی بڑے بڑے دروازوں پر دستک دینے لگی، حالات ایسے ہو گئے کہ روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لالے پڑ گئے۔ غالب کی زندگی بھی متاثر ہوئی ، انہوں نے عیش ونشاط کے جو خواب دیکھے تھے وہ سب چکنا چور ہو گئے۔ ان کی آرزوئیں ملیامیٹ ہو گئیں۔
غالب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاش کا تھا۔ غالب غم روزگار کی حقیقت سے آشنا تھے۔ اسی لیے غالب نے ایک عام آدمی کی طرح مادی اور معاشی کرب کو محسوس کیا اور اپنی شاعری میں غم روزگار کو اپنے خیال کا پیرہن عطا کیا۔ وہ ہمیشہ معاشی تنگدستی کے شکار رہے۔ ان کی پوری زندگی کرایہ کے کمرے میں گزری، انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے ’’اس ناداری کے زمانے میں جس قدر کپڑا اوڑھنا بچھونا گھر میں تھا بیچ کر کھا گیا، گویا اور لوگ روٹی کھاتے تھے اور میں کپڑا کھاتا تھا۔‘‘ بڑے فنکاروں کی زندگی میں درد کے پیوند لگتے ہی رہتے ہیں۔ غالب کی زندگی بھی اسی درد سے گزر رہی تھی۔
اس لیے انہوں نے اپنے خطوط میں اس درد کا بغیر کسی تکلف کے اظہار کیا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ایک پیسے کی آمدن ہیں بیس آدمی روٹی کھانے والے موجود، مقام معلوم سے کچھ آئے جاتاہے جوبقدر سد رمق ہے۔ ایک اور خط میں اسی طرح اپنی معاشی تنگدستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’روٹی کھانے کو نہیں، جاڑے آتے ہیں لحاف توشک کی فکر ہے۔‘‘ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خواص کے شاعر تھے ،عوام سے ان کا رشتہ نہیں تھا، مگر ایسا سوچنا غلط ہے کیونکہ غالب اپنی زندگی میں عام آدمیوں جیسے تجربوں سے گزرے تھے اور ان تجربوں کو انہوں نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعہ شیئر کیا۔
ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’وہ عزت و ربط وضبط جو ہم رئیس زادوں کا تھا اب کہاں ، روٹی کا ٹکڑا ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔‘‘ عام آدمی کی طرح غالب کے لیے بھی معاش کا مسئلہ ا ن کی زندگی میں بڑی اہمیت کاحامل تھا۔ اسی لیے جب غالب داخل حوالات ہوئے تو ایک شعر کہا:
شادم از بند کہ از بند معاش آزادم
از کف شحنہ رسد جامہ ونانم دربند
(ترجمہ : قید سے خوش ہوں کہ قید معاش سے بری کر دیا، اب مجھے روٹی ،کپڑا دروغہ جیل پہنچاتا ہے) غالب کے ساتھ معاشی دشواریاں یوں بھی لاحق تھیں کہ وہ خاصے فراخ دل تھے ، کہتے ہیں کہ کوئی فقیر مرزا کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا، وہ اپنے عزیز واقربا کا خاص خیال رکھتے تھے۔ معاشی مجبوری کے باوجود نوکروں کو ملازمت سے برخاست نہیں کیا۔ غالب کی نجی زندگی سب کے لیے سبق آموز ہے۔غالب نے بڑی اچھی بات کہی تھی :
غم عشق اگر نہ ہوتا،غم روزگار ہوتا
اسی غم روزگار نے غالب کی شاعری کو ہمارے عہد کے احساس سے جوڑ دیا ہے۔
0 Comments