ورجینیا ووُلف نے ایک بار کہا تھا ’عوامی کتب خانوں کی چھان بین کرنے پر میں انھیں آنکھوں سے اوجھل خزانے سے بھرا ہوا پاتی ہوں۔‘ ساتھی مصنف ہورہے لوئس بورجیز نے بھی ان سے کافی حد تک اتفاق کرتے ہوئے کہا ’میں نے ہمیشہ یہ تصور کیا ہے کہ جنت ایک قسم کی لائبریری ہو گی۔‘ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں کچھ لوگوں کے خیال میں شاید یہ کتب خانے فرسودہ ہو چکے ہوں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کی دریافت کے آغاز سے ہی یہ انسانی دلچسپی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ان دروازوں کے اندر داخل ہو کر ہم کھو سے جاتے ہیں اور حیرت کے مارے ایسی کتب کا مطالعہ بھی شروع کر دیتے ہیں جنھیں پڑھنا مقصود ہی نہیں ہوتا۔
یہ کتابیں نہ صرف علم فراہم کرتی ہیں بلکہ ان کا مطالعہ ہر کوئی کر سکتا ہے۔ یہ جسم اور روح کے لیے ایک پناہ گاہ ثابت ہوتی ہیں اور آرام و سکون کا باعث بنتی ہیں۔ ان کتب خانوں میں لا محدود کتابوں کے مطالعے کے علاوہ تجربے کی بنیاد پر مشورے بھی ملتے ہیں اور تو اور قسمت اچھی ہو تو مفت وائی فائی سمیت، فری ہیٹینگ بھی میسر ہوتی ہے۔ جی ہاں یہ سچ ہے کہ کتب خانے ہمارے لیے بہت کچھ کرتے ہیں، مگر ہم ان کتب خانوں سے متعلق کیا معلومات رکھتے ہیں؟
ڈیوئی ڈیسیمل سسٹم کا وہ نظام استعمال کرتے ہوئے جو 135 ممالک میں دو لاکھ سے زائد کتب خانوں میں درجہ بندی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ہم نے کچھ حیران کن حقائق مرتب کیے ہیں۔ کتب خانوں کے کچھ ابتدائی شواہد، ثومر سے دریافت ہوئے جو میسوپوٹیمیا کا تاریخی علاقہ ہے۔ مٹی سے تیار کردہ منظم انداز میں رکھی گئی ایسی تختیاں دریافت ہوئیں جن پر لکھنے کی سب سے قدیم شکل موجود تھی، ان پر کاروباری اور تجارتی لین دین کا ریکارڈ رکھا گیا تھا۔ تاہم ماہرین آثار قدیمہ کو میگیزین رکھنے والے ریکس، سکے سے چلنے والی فوٹو کاپیئر مشینوں یا کسی قسم کی مائیکروفلم کے کوئی شواہد نہیں مل پائے۔
مصر کی عظیم لائبریری ایلیگزینڈریا میں ملنے والے حقائق کچھ زیادہ ہی دلچسپ تھے، جس نے قدیم زمانوں کا تمام علم ایک مقام پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب تک کہ جولیئس سیزر نے اسے ایک فوجی غلطی میں زمین بوس نہیں کر دیا۔ یہ 48 سال قبل از مسیح کی بات ہے، رومن جنرل کو بندرگاہ خالی کروانے کے لیے اپنے ہی بحری جہازوں کو آگ لگانا پڑی تھی۔ بیشتر قدیم مصنفین چاہے وہ پلوٹارک ہو یا اوروسیئس، کے مطابق آگ قابو سے باہر ہو گئی جس نے تمام شہر اور اس میں پائے جانے والے مشہور کتب خانے میں خاصی تباہی مچائی۔
کئی صدیوں تک کتب خانوں میں لپٹے ہوا کاغذوں پر معلومات درج ہوا کرتی تھیں جنھیں عالم، کتابوں کی ایجاد سے قبل کہیں کھڑے ہو کر پڑھا کرتے تھے۔ کتابوں کی ایجاد کے بعد، مطالعے کے شوقین حضرات اور لائبریریوں کے عملے کے لیے بہت سی چیزیں بے نقاب ہوئیں۔ کانگرس کا کتب خانہ درحقیقت امریکہ کا قومی کتب خانہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ دنیا کا سب سے بڑا کتب خانہ بھی ہے جس میں 16 کروڑ سے زائد اشیا تقریباً 450 زبانوں میں موجود ہیں۔ اس کتب خانے میں دنیا بھر سے اکٹھا کیا گیا ادبی اور شائع شدہ، اہم مواد موجود ہے۔ اگرچہ عام عوام اس کتب خانے کا دورہ کر سکتی ہے لیکن کتب اور دیگر مواد تک رسائی صرف اعلٰیٰ حکومتی عہدے داران ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
برطانوی کتب خانہ دنیا کا دوسرا بڑا کتب خانہ ہے جس میں 15 کروڑ اشیا مثلاً کتابیں، نقشے، میگیزین، شیٹ میوزک اور دیگر اشیا موجود ہیں۔ اور اپنے امریکی حریف کے برعکس اس کتب خانے میں موجود تمام اشیا عوام کے مطالعے کے لیے دستیاب ہیں۔ کتب خانے سے سب سے زیادہ چوری ہونے والی کتاب گینیس بُک آف ورلڈ ریکارڈز ہے جسے لوگ شاید اس نیت سے چوری کرتے ہیں کہ یہ جان سکیں کہ وہ کونسی کتاب ہے جو سب سے زیادہ چوری کی جاتی ہے۔ ان خاص قسم کے چوروں کو خوشگوار سرپرائز ملے گا۔
جن دوردراز علاقوں میں کتب خانے تک رسائی ممکن نہیں ہوتی وہاں جانوروں کو عارضی کتب خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور گھوڑوں، اونٹوں اور گدھوں کی پیٹھ پر کتابیں لاد کر لوگوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔ ستم ظریفی ہے یہ کہ عام طور پران جانوروں کا کتب خانے میں داخلہ ممنوع ہے۔ آپ یہ سن کر بہت حیران ہوں گے کہ کتب خانے صرف کتابیں ہی نہیں جاری کرتے۔ دنیا بھر کے کتب خانے کھلونے، بیج، اوزار، موسیقی، صوتی کتابیں، آرٹ اور یہاں تک کہ انسانوں کی صورت میں ’زندہ کتابیں‘ بھی مہیا کرتے ہیں، جن میں لوگ اپنی زندگی کی کہانیاں اپنی زبانی سناتے ہیں۔
دنیا کا سب سے زیادہ اونچائی پر پایا جانے والا کتب خانہ چین کے شہر شینگھائی کے جے ڈبلیو میریٹ ہوٹل کی 60 ویں منزل پر ہے۔ کوئی نہیں جانتا ایسا کیوں ہے۔ سنہ 1789 میں صدر جارج واشنگٹن نے نیویارک سوسائٹی کے کتب خانے سے ’دی لا آف نیشنز‘ کتاب لی اور اگلے 221 برسوں تک یہ کتاب ان کے خاندان کے پاس ہی رہی۔ بلآخر سنہ 2010 میں یہ کتاب، کتب خانے کو لوٹا دی گئی۔ شاید اس واقعہ کی وجہ سے جارج واشنگٹن کی لائبریرینز میں مقبولیت کم ہو گئی تھی دنیا کے مشہور ترین لائبریرینز میں جیکب گرِم، ماؤ زیڈانگ، گولڈا مئیر، فییلپ لارکن، مارسل پروسٹ، ہورہے لوئس بورجیز، گوئتھا اور لوئس کیرل کا شمار ہوتا ہے۔ یہ تمام لوگ نہ صرف لکھ کر لطف اٹھاتے تھے بلکہ کتابوں کو اپنے ارد گرد پا کر بے حد خوش ہوتے تھے اور شاید رومن مقرر اور فلسفی سیسیرو سے متاثر بھی تھے جنھوں نے ایک بار کہا ’کتابوں سے خالی کمرے کی مراد ایسی ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔‘
0 Comments