انگریزی عہد میں 1850ء کے بعد لاہور علم و ادب کے ایک نئے مرکز کے طور پر ابھرا۔ شاعری کے علاوہ اب اردو نثر پر بھی بالخصوص توجہ دی جانے لگی۔ نیز اس کے فروغ کے لیے کئی اقدامات بھی کیے گئے۔ دہلی کے اجڑنے کے بعد تو لاہور اور بھی اہمیت اختیار کر گیا۔ اردو زبان و ادب کے لیے انگریزوں نے انقلابی اقدامات کئے ۔ گو کہ انہوں نے یہ وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مفاد میں کیے لیکن ان کا بالواسطہ اور دور رس فائدہ اردو زبان و ادب کو ہوا۔ ورنہ انیسویں صدی کے وسط تک فارسی سرکاری اور علم و ادب کی زبان کے طور پر رائج رہی ہے۔ انگریزوں نے اپنے اقتدار کے استحکام و دوام کے لیے فارسی کی سرکاری حیثیت کو ختم کرنا چاہا۔
لہٰذا پہلے انگریزی زبان اور بعدازاں اس کے نفاذ میں درپیش مشکلات کی وجہ سے اس کی جگہ اردو زبان کو رائج کیا۔ زبان تہذیب و ثقافت کا مظہر ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے فارسی مسلمانوں کی ثقافت کا نشان تھی۔ فارسی زبان کو یک دم منسوخ کرنا اس قدر آسان نہ تھا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اردو کا پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ 1822ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرپرستی میں کلکتہ سے جاری کیا گیا۔ لیکن لوگ فارسی سے زیادہ مانوس تھے۔ اردو زبان میں اس کی مانگ کم ہونے کی بنا پر ناشرین نے یہ اخبار چند ماہ بعد فارسی میں شائع کرنا شروع کر دیا۔
ہر چند کہ ایک سال بعد پھر سے اس نے اردو کی جانب رجوع کیا لیکن اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ فارسی کے بجائے اردو کی مانگ میں اضافہ ہوا بلکہ اس کے جاری کرنے کا مقصد اردو کا ذوق رکھنے والے یورپی باشندوں کو یہ مواد فراہم کرنا تھا۔ چنانچہ فارسی اخبار کو برقرار رکھتے ہوئے ’’جام جہاں نما‘‘ کا اردو ضمیمہ شائع ہونے لگا۔ بعدازاں ضمیمہ بند کرنا پڑا۔ انگریزوں نے اس مسئلے کا حل 1834ء میں فارسی کے بجائے اردو زبان کو سرکاری حیثیت دینے میں تلاش کیا۔ نتیجتاً سرکاری سرپرستی کی بنا پر کئی اردو اخبارات بھی نکلنا شروع ہو گئے۔ 1835ء میں اردو انتظامی اور عدالتی سطح پر ملکی اور دیسی زبان تسلیم ہو کر فارسی کی جگہ سرکاری دفاتر میں بھی استعمال ہونے لگی۔
رفیق یار خان یوسفی اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ ’’عدالتی اور قانون زبان کی حیثیت سے اردو کی وسعت اور صلاحیت‘‘ میں اردو زبان کے برتاؤ کا نقشہ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’عدالتوں میں ہر سطح پر اردو کے چلن کو عام کرنے کے لیے روز افزوں اضافہ ہوتا رہا جس کے نتیجے میں عدالتیں اپنی تمام کارروائی اردو میں انجام دینے لگیں۔ تھانے سے لے کر عدالت عظمیٰ کی سطح تک ہر طرح کی کارروائی اردو میں ہونے لگی۔ ’رپٹ‘ اردو میں لکھوائی گئی، چالان اردو میں لکھے جانے لگے۔ گواہیاں اردو میں دی جانے لگیں۔ بیانات اردو میں قلم بند ہونے لگے۔ عدالتوں میں بحث اردو میں ہونے لگی۔
فیصلے اردو میں دیے جانے لگے۔ غرض یہ کہ دفتری اور عدالتی زبان کی حیثیت سے اردو بہ حسن و خوبی اپنے فرائض انجام دینے لگی۔ وکلا حضرات بھی اپنی معروضات اردو میں پیش کرتے تھے۔ اس طرح اردو زبان عدالتی کارروائیوں میں خود کفیل ہو گئی تھی حالانکہ قوانین انگریز کے بنائے ہوئے تھے لیکن ان کے بیان کرنے، تشریح کرنے یا ترجمے کرنے میں کوئی مشکل یا دقت پیش نہیں آ رہی تھی۔‘‘ سرکاری سمن، پروانے، احکامات اور اکثر تجاویز اردو میں تحریر ہونے لگیں۔ اس کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ 1859ء تک اکثر فیصلے اور بیعہ نامے وغیرہ فارسی ہی میں لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قانونی اردو نثر میں اجنبی ترکیبوں اور عربی فارسی الفاظ کی ملاوٹ سے زبان میں صفائی اور سلاست پیدا نہ ہو سکی تھی۔ درحقیقت زبانی ادائے مطلب کے لیے عموماً اردو میں بات چیت کی جاتی تھی مگر کتابیں، مضامین بلکہ چھوٹے چھوٹے رقعوں اور خطوط میں فارسی بدستور لکھی جا رہی تھی۔‘‘
0 Comments