Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ورجینیا وولف : ان کے ناول آج بھی اہم ادبی تخلیقات میں شمار ہوتے ہیں

ورجینیا وولف لندن میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک ادیب تھے۔ گھر میں خوشحالی تھی اور وَرجینیا اور ان کے بہن بھائیوں نے کسی سکول جانے کی بجائے گھر ہی پر تعلیم حاصل کی، جس کے لیے قابل اساتذہ باقاعدہ گھر آیا کرتے تھے۔ وہ 13 برس کی تھیں کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور وہ پہلی مرتبہ ایک بڑے نفسیاتی بحران سے دوچار ہوئیں۔ تاہم یہ مایوسیاں ان کی زندگی کا صرف ایک رخ ہیں۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ شروع میں وہ جریدے ٹائمز کے لیے باقاعدگی کے ساتھ مضامین لکھتی رہیں، ان کا گھر اس وقت کے اہم ادیبوں کے مل بیٹھنے کے ایک مرکز کی شکل اختیار کر گیا اور اِن ادبی مباحث میں اس دَور کی سیاست، ادب اور فنون پر بھرپور طریقے سے اظہارِ خیال کیا جاتا تھا۔ 

اِن محفلوں میں وَرجینیا خود کو ایک زندہ دِل شخصیت کے طور پر پیش کرتی تھیں لیکن اندر سے وہ دکھی تھیں۔ 1913ء میں معروف ادبی نقاد لیونارڈ وولف کے ساتھ شادی کے چند ہی مہینے بعد انہوں نے خودکشی کی پہلی کوشش کی۔ تاہم ادب تخلیق کرنے کے سلسلے میں ان کی رفتار بدستور تیز رہی۔ ایک برس قبل ہی میں ان کا پہلا ناول ’’دی وویج آؤٹ‘‘ شائع ہو چکا تھا۔ اِس کے بعد کے برسوں میں ان کے کئی ناول شائع ہوئے، جن میں انسان کے شعوری تانے بانے کو بیان کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ اگرچہ ان کے ناول آج بھی اہم ادبی تخلیقات میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ان کے بعد کے دَور کے مضامین ہیں۔ 1929ء میں ان کا مضمون ’’اے روم آف ونز اون‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس میں انہوں نے ادب تخلیق کرنے والی خواتین کے خراب حالات کی طرف متوجہ کیا تھا۔ 

انہوں نے لکھا تھا کہ سال میں پانچ سو پاؤنڈ ادا کیے جائیں اور رہنے کے لیے ایک الگ کمرہ دیا جائے تو خواتین کو بھی ویسی ہی کامیابی مل سکتی ہے، جیسے کہ مرد ادیبوں کو۔ تاہم ادب کے میدان میں ان کی کامیابیاں ان کی خراب نفسیاتی حالت کو بہتر نہ بنا سکیں۔ اس کے علاوہ وہ خاص طور پر مغربی دنیا میں حقوقِ نسواں کی تحریک کی بانی شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی یہ پہچان اتنی زیادہ نمایاں ہے کہ کبھی کبھی ان کا ایک بے مثل ادیبہ ہونا پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ ان پر بار بار مایوسی کے دَورے پڑتے تھے، انہیں آوازیں سنائی دیتی تھیں اور وہ کئی کئی روز تک کام نہیں کر سکتی تھیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران 1940ء میں جرمن جنگی طیاروں نے ان کے لندن کے گھر کو تباہ کر دیا۔ 28 مارچ 1941ء کو انہوں نے ایک ندی میں چھلانگ لگا خودکشی کر لی تھی۔انہوں نے خواتین پر زور دیا کہ وہ محض مرد ادیبوں کی نقالی کرنے کی بجائے اپنے الگ تخلیقی راستے تلاش کریں۔

معروف آزاد


 

Post a Comment

0 Comments