Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

سید ضمیر جعفری کی باتیں

جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اور میرا حافظہ بہت دور تک کام کرتا ہے۔ صرف قریب کی باتوں اور واقعات کو یاد رکھنے سے انکاری ہے تو جہاں تک یاد پڑتا ہے۔ ضمیر بھائی سے میرا تعارف 1951 کے اواخر میں نہایت عزیز دوست میاں فضل حسن مرحوم کے توسل سے ہوا۔ فضل صاحب شعر و ادب، شکار اور موسیقی کے رسیا تھے۔ جامع الحیثیات شخصیت، کئی ہزار کتابوں اور ایک مل کے مالک تھے۔ شاعروں اور ادیبوں کو اس طرح جمع کرتے تھے جیسے بچے ڈاک کے استعمال شدہ ٹکٹ یا خارج المیعاد یعنی پرانے سکے جمع کرتے ہیں۔ وہ ہر اتوار کو سات آٹھ شاعروں کو گھیر گھار کر گارڈن ایسٹ میں اپنے دولت کدے پر لاتے جہاں ایک بجے تک گپ اور لنچ کے بعد مشاعرے کا رنگ جمتا۔

لنچ کا ذکر اس لیے بھی کرنا پڑا کہ من جملہ دیگر لذائذ کے دستر خوان پر چنیوٹ کا اچار بھی ہوتا تھا جس میں مجھ سے فرق ناشناس کو بس اتنا ہی فرق معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ کھٹا ہوتا ہے اور سرسوں کے تیل میں اٹھایا جاتا ہے جس کی بو مجھے اچھی نہیں لگتی۔ فضل صاحب کہتے تھے جس کیری پہ چنیوٹ کا طوطا بیٹھ جائے وہ بڑی جلدی پکتی اور گدر ہوتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ طوطا اگر انڈسٹری پہ بیٹھ جائے تو وہ بھی خوب پھل دیتی ہے۔ ہمارے ناپسندیدہ تیل کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس میں الھڑ مٹیاروں کے ہاتھوں کی مست مہک آتی ہے جو سنہرے کھیتوں میں سرسوں چنتی ہیں! ہمیں آج بھی اس تیل کا اچار کھانا پڑا تو یہ سمجھ کے کھاتے ہیں گویا سنہرے کھیتوں میں مذکورہ بالا ہاتھوں سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ ان کے ہاں بھینس کا گھی بھی چنیوٹ سے آتا تھا جس کے مخصوص خواص شاہی حکیموں کے نسخوں سے کشید کیے گئے تھے۔

مولانا ماہر القادری کسی ایسے میزبان کی دعوت قبول نہیں کرتے تھے جس کے گھر میں کھانا بناسپتی گھی میں پکتا ہو یا جہاں فرش پر بیٹھ کر کھانا پڑے۔ میرے یہاں دونوں فقیرانہ قباحتیں تھیں۔ چناں چہ کبھی ان کو مدعو کرنے ہمت نہ پڑی۔ فرماتے تھے، کبھی کوئی دھوکے سے بناسپتی گھی میں بنے سالن کا ایک لقمہ بھی کھلا دے تو دوسرے دن پتا چل جاتا ہے۔ لاکھ سر ماروں مصرع موزوں نہیں ہوتا۔ شعر میں کبھی سکتہ پڑتا ہے اور کبھی شتر گربہ ہو جاتا ہے۔ طبیعت میں انشراح کے بجائے قبض محسوس ہوتا ہے۔ شعر رک رک کر آتا ہے۔ فرش پر دستر خوان بچھا کر کھانے کے بارے میں مولانا فرماتے تھے کہ اس طرح بیٹھ کر کھانے سے دائرۂ شکم پچک جاتا ہے اور اشتہا اور معدے کا مکعب انچ (Cubic Inch) رقبہ آدھا رہ جاتا ہے۔

ضمیر جعفری خوش خوراک ضرور تھے مگر رئیسانہ نفاستوں اور نخروں سے دور رہتے تھے۔ فرشی نشست انھیں بھی پسند نہیں تھی مگر وجہ دوسری تھی۔ جو شعرائے کرام ان ہفتہ وار محفلوں میں شریک ہوتے یا کھینچ بلائے جاتے،ان میں سید ضمیر جعفری ، سید محمد جعفری، ظریف جبل پوری، ادیب سہارن پوری، ماہر القادری، اقبال صفی پوری اور بہزاد لکھنوی نمایاں تھے۔ یوں تو عندلیب شادانی، مجنوں گورکھ پوری ، نشور واحدی بھی دو تین بار ان محفلوں کو رونق بخش چکے تھے۔ ہانکا کرنے والوں میں سید محمد جعفری، مسرت علی صدیقی اور راقم الحروف پیش پیش تھے۔ جو ملاقات آٹھ نو گھنٹے سے کم دورانیہ کی ہو، فضل صاحب اس کا شمار حادثاتی مڈبھیڑ میں کرتے تھے۔

کچھ شاعر اس لیے کتراتے تھے اور ضمیر جعفری ان میں سے ایک تھے۔ وہ کہتے تھے کہ لذیذ غذا کے بعد ہزار بار سنی ہوئی غزلوں سے ہاضمے پر بہت برا اثر پڑتا مگر نیند اچھی آتی ہے۔ دوسری وجہ جو انھوں نے بتائی وہ یہ تھی کہ ان دنوں ان کے پاس حفیظ جالندھری مقیم تھے جو اپنی بیوی کے ساتھ یک جائی اور ضمیر سے ایک گھنٹے کی بھی جدائی برداشت نہیں کرتے تھے۔ متروک سے محاورے کے مطابق صاحب ِ خانہ لنچ پر جو سونے کا نوالہ کھلاتے، اسے اسی جگہ بٹھا کر ذاتی نگرانی میں ہضم کرواتے تھے۔ بات صرف اتنی تھی کہ میاں فضل حسن خوش باش اور محفل باز آدمی تھے اور اپنی صحبت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

ضمیر لنچ سے پہلے اٹھ جاتے یا سہ پہر کو کھڑے کھڑے آتے۔ صبح 9 بجے کے پکڑے ہوئے شاعر کو شام چھ بجے سے پہلے رہائی نصیب نہیں ہوتی تھی اور شام کو بھی محض اس لیے کہ میاں فضل حسن کے والد گرامی حاجی احمد حسن صاحب غروب آفتاب کے بعد شعر سننے کو مکروہ اور منحوس تصور کرتے تھے۔ بیٹے سے فرماتے تھے کہ اگر ایسا ہی شوق ہے تو مشتاق صاحب کے گھر ان کو لے جا کر باقی ماندہ خرافات سن لو۔ ترنم سے شعر سننے کو بد چلنی کا مترنم آغاز سمجھتے تھے۔ خراب شعر اور خراب ترنم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایسی شاعری اور ترنم سے طبیعت میں اشتعال پیدا نہیں ہوتا۔

گھر پر محفل موسیقی کے سخت خلاف تھے۔ اس زمانے میں دوالے کے بعد جب کسی کا گھر قرق یا نیلام ہوتا تھا تو عدالت کا بیلف اس گھر کے سامنے ڈھول بجوا کر دوالے اور نیلامی کا اعلان کرتا تھا۔ حاجی صاحب فرماتے تھے کہ جس گھر میں طبلے پر تھاپ پڑا یا ٹھیکا لگا اس کے سامنے نیلامی کا ڈھول بجے ہی بجے۔ اپنے بیٹے سے کہتے تھے کہ تمھیں فریدہ خانم کا گانا سننا ہے تو مشتاق صاحب کے یہاں شوق سے طبلہ سارنگی بجواؤ۔

مشتاق احمد یوسفی


Post a Comment

0 Comments