Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

دنیا کی مختصر ترین کہانیاں

افسانے کے محدود کینوس میں طوالت کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ بے جا تفصیل سے تصویر میں حرکت نہیں آتی اور افسانویت باقی نہیں رہتی۔ انگریزی زبان میں افسانے کو ’’شارٹ سٹوری‘‘ یعنی مختصر کہانی کہا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی لمبائی کی کوئی خاص حد مقرر نہیں ہے۔ بعض کہانیاں تو درجنوں صفحات پر محیط ہوتی ہے، تاہم انہیں بھی شارٹ سٹوری کہا جاتا ہے، لانگ سٹوری یا ناول نہیں، لیکن مختصر کہانی کتنی مختصر ہو سکتی ہے؟ 500 الفاظ پر ، 100 الفاظ پر یا 50 الفاظ پر مشتمل۔ یہ طے نہیں ہے۔ 1987 میں نیو یارک ٹائمز نے ایک مقابلے کا اعلان کیا جو بعد میں ’’55 فکشن‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس مقابلے میں دنیا بھر سے مصنفین کو 55 الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ 

منتخب کہانیوں کو اخبار میں شائع کیا جاتا ہے۔ 2006 میں اخبار کو سات سو کہانیاں موصول ہوئیں جس میں سے 16 معیار پر پوری اتر سکیں۔ ان مختصر کہانیوں کا انتخاب’’ دنیا کی مختصر ترین کہانیاں‘‘ کے نام سے شائع بھی ہو چکا ہے۔ لیکن ایسے ادیب بھی ہیں جنہیں پچپن الفاظ بھی بہت زیادہ لگتے ہیں۔ کم از کم ایک مصنف نے مختصر کہانی کی آخری حد پار کر ڈالی ہے اور اس سے سبقت لے جانا ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس کہانی میں الفاظ کی تعداد صفر ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کہانی میں ایک لفظ بھی نہ ہو؟ عنوان :’’تیسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کی تاریخ‘‘ کہانی : دو سادہ صفحے سوچیے تو کیا نہیں ہے اس کہانی میں طنز، سبق آموزی اور تاثیر کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ ظاہر ہے اختصار میں دنیا کا کوئی ادیب اس کہانی سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔ 

تاہم اس سے قدرے قدرے لمبی کہانیوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس صنف میں ڈراؤنی کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہانی دیکھیے: ’’ دنیا کا آخری آدمی کمرے میں بیٹھا تھا، کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ ‘‘ مختصر ترین کہانیوں کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ کے مشہور میگزین ’’وائرڈ‘‘ نے نومبر 2006 کے شمارے میں ایک دلچسپ تجربہ کیا۔ میگزین کے مدیر نے امریکہ کے چوٹی کے ادیبوں کو صرف 6 الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی۔ 

میگزین کے پاس بطور مثال نوبل انعام یافتہ ادیب’’ارنسٹ ہیمنگوئے‘‘ کی مختصر کہانی موجود تھی: ــ’’بچگانہ جوتے برائے فروخت، کبھی استعمال نہیں ہوئے‘‘ انگریزی میں یہ کہانی صرف 6 الفاظ پر مشتمل ہے جس میں ادیب نے پوری داستان سمودی ہے۔ جوتے کون بیچ رہا ہے؟ کسی بچے کے والدین، شاید بچہ پیدا ہوتے ہی مر گیا تھا، مرا ہوا ہی پیدا ہوا تھا۔ والدین نے بڑے ارمانوں اور چاؤ سے اس کے لیے جوتے خریدے ہوں گے لیکن اب وہ اپنی مالی حالات کے ہاتھوں اتنے مجبور ہو گئے کہ مرے ہوئے بچے کے جوتے بیچنے کی نوبت آگئی۔ غربت کا عفریت، معاشی نا ہمواری، وسائل کی نا مناسب تقسیم، قدرت کے سامنے انسان کی بے بسی اور ذاتی المیے کے با وجود زندگی کی گاڑی کا چلتے رہنا سب کچھ اس کہانی میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے ہیمنگوئے نے اس کہانی کو اپنے کیریئر کی اعلیٰ ترین کہانی قرار دیا تھا۔ 

وائرڈ میگزین کی درخواست پر امریکہ کے صف اول کے درجنوں مصنفین نے اپنی اپنی کہانیاں بھیجیں۔ مصنفین کی اکثریت کا تعلق سائنس فکشن، فینٹسی اور دہشت ناک کہانیاں لکھنے والوں میں سے تھا۔ میگزین کو موصول ہونے والی کہانیوں کے موضوعات بہت متنوع تھے۔ باہمی تعلقات، محبت اور سیاست وغیرہ۔ تاہم بہت سی کہانیوں میں ’’ڈس ٹوپیا‘‘ کا تصور بھی نظر آتا ہے یعنی انسان اور دنیا کے مستقبل سے مایوسی۔ یہ کوئی انوکھی بات اس لیے نہیں کیوں کہ ڈسٹوپیا پچھلے سو برس کے ادب کے مرکزی موضوعات میں سے ایک رہا ہے۔ میگزین کے شمارے سے چند منتخب کہانیوں کا ترجمہ نذرِ قارئین ہے، دیکھیے ان میں سے کئی کہانیاں اپنے اعجاز اور اختصار اور کی بنا پر شاعری کے درجے تک پہنچ گئی ہیں: 

1۔ اس کی حسرت تھی، مل گیا، لعنت۔ 

2۔ میں تمہارا مستقبل ہوں، مت رو بچے۔ 

3۔ میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا۔ خدا حافظ۔ 

4۔ دن برباد، زندگی برباد، ذرا میٹھا بڑھانا۔ 

5۔ کتبہ : بے وقوف انسان، زمین سے بھاگ نہیں سکا۔ 

6۔ بہت مہنگا ہے انسان رہنا۔ 

7۔ بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی۔ 

8۔ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا۔ 

9۔ مشین مستقبل میں پہنچ گئی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ 

10۔ جھوٹ پکڑنے والی عینک کی ایجاد۔ انسانیت منہدم ہو گئی۔ 

11۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھ پر گولی نہیں چلائے گی۔ 

12۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ تفصیل 11 بجے۔

13۔ اس سے شادی مت کرو۔ گھر خرید لو۔ 

14۔ کیا اتنا کافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا۔ 

مشکور علی


 

Post a Comment

0 Comments