Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

اکبر الہٰ آبادی : 19 ویں صدی کا بے مثل شاعر

انیسویں صدی میں جن شعرا نے اپنی با کمال شاعری کی وجہ سے دھوم مچائی ان میں اکبر الہٰ آبادی کا نام سرفہرست ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نے غزل گوئی اور نظم گوئی میں ایک الگ مقام بنایا۔ 16 نومبر 1846 کو الہٰ آباد میں پیدا ہونے والے اکبر الہٰ آبادی کا اصل نام اکبر حسین رضوی تھا۔ وہ مختلف سماجی مسائل کو اپنی نظموں میں اجاگر کرتے تھے اور طنز کے تیر بھی چلاتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کی شاعری کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسوں سے حاصل کی۔ اس وقت یہ اکثر مسلمان بچوں کی روایت تھی۔ بعد میں وہ کالج گئے اور قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہ الہٰ آباد میں سیشن جج کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ وہ سر سید احمد خان کی مغرب نواز پالیسیوں کے ناقد تھے اور برطانوی راج کے سخت خلاف تھے۔

وہ بڑے بذلہ سنج تھے اور ان کی حس مزاح بھی کمال کی تھی۔ وہ بڑے حاضر جواب تھے۔ حسِ مزاح کی جھلک ان کی شاعری میں بھی ملتی ہے۔ محبت اور سیاست کے سنجیدہ موضوعات کو بھی وہ اکثر اوقات مزاحیہ رنگ دے دیتے تھے۔ انہیں اردو زبان پر عبور حاصل تھا جس کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ آسان زبان میں بھی اپنے خیالات کا اظہار بڑے مؤثر انداز میں کرتے تھے۔ وہ اپنی شاعری میں انگریزی کے الفاظ بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں اس دور کی ثقافت کے رنگ ہمیں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ ان کی شاندار ادبی خدمات کی وجہ سے انہیں ’’لسان العصر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ وہ برصغیر کے ان مسلمانوں پر تنقید کے تیر چلاتے تھے جو اپنے آپ کو مغربی اقدار کا علمبردار کہلوانے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ 

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ مغربی ثقافت اور تعلیم پر ان کے تیز حملوں کی وجہ سے ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ اس حوالے سے ان کے مداحین کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ ان کی شاعری کا عمیق مطالعہ کرنے پر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ ایک قوم پرست اردو کے شاعر تھے۔ ان کے خاندان کا دعویٰ تھا کہ وہ تہران سے ہندوستان آیا ہے۔ ان کے والد مولوی تفضل حسین نائب تحصیلدار تھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ ان کی والدہ کا تعلق ایک زمیندار خاندان سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر الہٰ آبادی سکول چھوڑنے کے بعد ریلوے میں کلرک کے طور پر ملازم ہو گئے اور نوکری کے دوران ہی انہوں نے قانون کا امتحان پاس کیا۔

وہ جج بننے سے پہلے تحصیلدار کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ اکبر الہٰ آبادی کا کیریئر سر سید احمد خان جیسا تھا۔ دونوں پرانی ثقافت کے راہی تھے لیکن انہیں جدید دور کا سامنا تھا۔ ان سب کے باوجود دونوں کے سیاسی نظریات میں بہت فرق تھا۔ اکبر مغربی تعلیم اور اقدار کے خلاف تھے جبکہ سر سید احمد خان کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کی بقا مغربی تعلیم کے حصول میں ہے۔ اکبر الہٰ آبادی کی غزلیات کے چند اشعار ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

 ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے

آہ جو دل سے نکالی جائے گی

کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی 

بی اے پاس ہوں ملے بی بی بھی دل پسند 

محنت کی ہے وہ بات یہ قسمت کی بات ہے

بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے

تو دل میں تو آیا ہے سمجھ میں نہیں آتا 

(حمدیہ شعر)

بُت کدے میں شور ہے اکبر مسلماں ہو گیا

بے وفائوں سے کوئی کہہ دے کہ ہاں ہاں ہو گیا

کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا 

جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا 

پبلک میں ذرا ہاتھ ملا لیجئے مجھ سے

 صاحب مرے ایمان کی قیمت ہے تو یہ ہے

ان کی کتابوں میں ’’کلیات اکبر الہٰ آبادی‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ان کے کلیات کا چوتھا حصہ 1948 میں شائع ہوا۔ اگرچہ اکبر الہٰ آبادی کو بہت شہرت ملی لیکن ان کی زندگی کا آخری حصہ بہت تکلیف میں گزرا۔ ان کی بیوی اور بیٹے کی وفات نے انہیں غم کے سمندر میں ڈبو دیا۔ ان کی صحت بگڑ گئی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ بستر سے لگ گئے۔ 15 فروری 1921ء کو وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔ اکبر الہٰ آبادی کو اردو شاعری میں جو جداگانہ حیثیت حاصل ہے اس کی وجہ سے ان کا نام اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

عبدالحفیظ ظفرؔ


 

Post a Comment

0 Comments