Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

جالب جالب : عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

مزاحمتی ادب کا جب بھی ذکر چھڑے گا، حبیب جالب کا نام ضرور آئے گا۔ قید و بند کی پروا کیے بغیر حبیب جالب ہمیشہ عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے رہے۔ جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے مگر حرف حق بلند کرتے رہے۔ ان کے انٹرویو کا ایک حصہ قارئین کی نذر: 

سوال: ادب اور سیاست کے درمیان جو باہمی رشتہ ہے وہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟

جواب: ادیب کسی ماحول یا خطے میں رہتا ہے، وہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ صبح سے لے کر شام تک زندہ رہنا ہی ایک سیاست ہے تو ادب کا تعلق زندگی سے بھی ہے، سیاست سے بھی ہے۔ 

سوال: آپ نے شاعری کا آغاز رومانی نظموں سے کیا تھا بعد میں اس کا رخ سیاست کی طرف مڑ گیا، ایسا کیوں ہوا؟ 

جواب: میں چونکہ ایک باشعور اور سخن سنج انسان ہوں۔ جب لوگوں کے حقوق چھینے جاتے ہیں، چیخیں سنائی دیتی ہیں، لوگوں پر مظالم ہوتے ہیں تو میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ کیونکہ میں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوں، میں جھوٹ بولنے کا عادی نہیں ہوں کہ روایتی قسم کی حسن و عشق کی داستانیں لکھوں۔ شروع میں آدمی طرح طرح کی جھکیں مارتا رہتا ہے۔ لیکن بڑی شاعری صرف معاملہ بندی کا ہی نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے مسائل اور حقائق کی ترجمانی کا نام ہے۔ غالب کے یہاں صرف معاملہ بندی نہیں ہے بلکہ گردو پیش کے مسائل کو فلسفیانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اقبالؒ کے یہاں بھی اسی قسم کی فکر ملتی ہے۔

معصوم مراد آبادی


 

Post a Comment

0 Comments