Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کتاب کسے کہتے ہیں ؟

مؤرخین کا خیال ہے کہ انسانی تاریخ کا زیادہ تر حصہ منظرِعام پر نہیں آ سکا ہے یعنی ابھی انسانی تاریخ کی مکمل کہانی کتابوں اور کتب خانوں میں محفوظ نہیں ہو سکی ہے۔ حتیٰ کہ زمانۂ قدیم میں بولی جانے والی کئی زبانوں کو تحریر میں لا کر پڑھنے کے قابل نہیں بنایا جا سکا۔ کتاب کی ابتدا بلکہ یوں کہا جائے کہ دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کی تاریخ اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتی جب تک تحریر کی ابتدا اور اس کی مکمل کہانی سامنے نہیں آ جاتی۔ کتاب کی تخلیق میں داستانوں، قصوں، کہانیوں، رسم و رواج، دیوی دیوتاؤں کی شان میں کہے گئے قصائد و مناجات اور فاتح لوگوں اور مافوق الفطرت کرداروں کے کارناموں کو دائرہ تحریر میں لا کر آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کے خیال کو بڑا دخل ہے۔

آج کے دور میں لفظ کتاب کی مختلف تعریقیں کی جاتی ہیں: ۱۔ اوراق کا مجموعہ جس کو مجلد شکل میں رکھا جائے۔ ۲۔ لکھے ہوئے یا چھپے ہوئے صفحات کو یک جا کر کے پشت سے سی دیا گیا ہو، اس کو کتاب کہتے ہیں۔ ۳۔ ایک ایسی تصنیف جو ہاتھ سے تحریر کی گئی ہو یا چھاپی گئی ہو اور وہ ایک یا ایک سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہو اس کوکتاب کہا جاتا ہے۔ لفظ کتاب پر مختلف آرا ظاہر کی جاتی ہیں لیکن عام طور پر اس کو برچ ٹری (Brich Tree) سے ماخوذ کیا جاتا ہے۔ انگریزی زبان میں لفظ بُک استعمال کیا جاتا ہے جو قدیم انگلش ’’Boc‘‘ کو ظاہر کرتا ہے اور برچ ٹری کے معنوں میں مستعمل ہے۔ چونکہ انگریزی مبلغین اپنی تحریریں اس درخت کی چھال پر لکھتے تھے، غالباً اسی وجہ سے یہ لفظ ’’بوک‘‘ کہلایا۔ 

آکسفورڈ ڈکشنری میں کتاب کی تعریف اس طرح کی گئی ہے ’’کتاب سے مراد ایک ایسا تحریری یا مطبوعہ مقالہ ہے جو متعدد صفحات پر مشتمل ہو اور جسے تہ کر کے ایک طرف سے سی دیا گیا ہو۔ کتاب کے قدیم مفہوم میں وہ رول بھی شامل کیے جا سکتے ہیں جن میں تحریر یا ادب کے شعبوں میں سے کوئی مواد یا کوئی ایسی چیز جس سے ہم علم حاصل کر سکیں، شامل ہو۔ فرہنگ آصفیہ میں کتاب کو یوں بیان کیا گیا ہے ’’کتاب (ع) مؤنث، نوشتہ، نامہ، مکتوب، لکھت، پستک، پوتھی، گرنتھ، شاستر، مقالہ، جلد، نسخہ، رسالہ۔‘‘ یقین سے یہ کہنا مشکل ہے کہ تحریر کی ایجاد کے بعد لوگوں نے کتنی جلد کتابیں تیار کرنا شروع کر دی تھیں۔ کتاب کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد بہت جلد تباہ ہو جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ تحریر کے قدیم نمونے صرف پتھر پر ملتے ہیں۔

شرافت علی


 

Post a Comment

0 Comments