Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں، ایک گھر بنانے میں : بشیر بدر، ایک منفرد اور باکمال غزل گو

جدید غزل کے حوالے سے بشیر بدر کا نام منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ 15 فروری 1935ء کو ایودھیا میں پیدا ہونے والے بشیر بدر نے شاعری میں بڑا نام کمایا۔ انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور پھر بعد میں پی ایچ ڈی بھی کر لی۔ اس دوران وہ میرٹھ چلے گئے فسادات کے دوران کے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ وہ کچھ عرصہ دہلی میں بھی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد محکمہ پولیس میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کرتے تھے اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ بشیر بدر کم سنی میں ہی میں اپنے ہم عمروں کے برعکس بڑے اونچے خیالات کے مالک تھے۔ وہ صاحب بصیرت تھے۔ سات برس کی عمرمیں انہوں نے پہلا شعر کہا۔ ان کی یہ دلی تمنا تھی کہ ان کے اشعار کسی ادبی جریدے میں شائع ہوں۔ پہلی مرتبہ ان کے اشعار لکھنؤ میں شائع ہونے والے ادبی جریدے ’’نگار‘‘ میں شائع ہوئے۔

بشیر بدر اپنے والد کے بہت چہیتے تھے۔ ان کے والد نے ہمیشہ ایمانداری اور دیانت داری کا سبق پڑھایا۔ وہ 16 سال کے تھے جب ان کے والد کو بیماریوں نے گھیر لیا۔ اس وجہ سے بشیربدر کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا اور وہ اپنے کنبے کی کفالت کے لیے نوکری تلاش کرنے لگے۔ 1967ء میں بشیر بدر نے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ انہوں نے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل ۔ ایم اے پارٹ ون میں انہوں نے اول پوزیشن حاصل کی۔ انہیں سر ولیم مورس ایوارڈ دیا گیا۔ ایم اے پارٹ ٹو میں بھی انہوں نے اول پوزیشن حاصل کی جس پر انہیں رادھا کشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بشیر بدر نے 1973ء میں پی ایچ ڈی کی۔ ان کا موضوع تھا ’’آزادی کے بعد اردو غزل‘‘۔ اس پر انہیں بہار اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔

ادبی میدان میں انہوں نے جو جھنڈے گاڑے اس پر ان کی یونیورسٹی کا نام مزید روشن ہوا۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ بشیر بدر نے مشاعروں میں اپنی ذہانت کا بے پناہ مظاہرہ کیا۔ انہوں نے جو کتابیں تصنیف کیں وہ علمی خزانے سے کم نہیں اور اب بھی یونیورسٹی کے طلبہ کو ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ بشیر بدر کی شاعری کا سب سے بڑا وصف ندرتِ خیال اور نکتہ آفرینی ہے۔ سادگی اور سلاست بھی ان کی غزلوں کا اہم جزو ہے۔ وہ زیادہ مشکل زبان استعمال نہیں کرتے۔ ان کے موضوعات چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔ چھوٹی بحر میں بھی انہوں نے باکمال غزلیں لکھی ہیں۔ 

ان کے سات شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں ’’اکائی، امیج، آمد، آہٹ، کلیاتِ بشیر بدر‘‘ بھی شامل ہیں۔ تنقید پر ان کی دو کتابیں ہیں جن میں ’’آزادی کے بعد اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ، اور بیسویں صدی میں غزل‘‘ شامل ہیں۔ بشیر بدر فارسی اور انگریزی زبان میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں کو گجراتی سکرپٹ میں بھی شائع کیا گیا۔ ان کی شاعری کا انگریزی اور فرانسیسی زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا۔ بشیربدر کی غزلوں میں شعری طرز احساس بھی ہے اور زندگی کے تلخ حقائق بھی۔ ان کے ہاں عصری کرب کااظہار بھی ملتا ہے اور وہ معروضی صورت حال سے ہرگز بے خبر نہیں رہتے۔ چونکہ ان کی غزلوں میں کوئی ابہام نہیں، اس لیے قاری کو انہیں سمجھنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ان کی شاعری میں رومانیت بھی ایک تیکھے انداز میں نظر آئی ہے۔ انہیں بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ذیل میں ان کی غزلوں کے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔ 

تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا 

مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا 

آس ہو گی نہ آسرا ہو گا

آنے والے دنوں میں کیا ہو گا

بے وفا راستے بدلتے ہیں

ہم سفر ساتھ ساتھ چلتے ہیں 

بھیگی ہوئی آنکھوں کا یہ منظر نہ ملے گا

گھر چھوڑ کے نہ جاؤ کہیں گھر نہ ملے گا 

اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا

جس کو گلے لگایا وہ دور ہو گیا 

پھول سے عاشقی کا ہنر سیکھ لے

تتلیاں خود رکیں گی صدائیں نہ دے 

دل پہ کرتے ہیں، دماغوں پہ اثر کرتے ہیں 

ہم عجب لوگ ہیں ذہنوں میں سفر کرتے ہیں

دوسروں کو ہماری سزائیں نہ دو

چاندنی رات کو بد دعائیں نہ دو

بشیر بدر 83 برس کے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کے جتنی خد مت کی ہے اس پر ان کی جتنی توصیف کی جائے کم ہے۔

عبدالحفیظ ظفرؔ


 

Post a Comment

0 Comments