Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

شکیل بدایونی : ایک شاندار غزل گو، بہترین نغمہ نگار

جب ایک غزل گو یا نظم گو فلمی گیت لکھتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کی فلمی شاعری کو تو یاد رکھا جاتا ہے لیکن اس کا دیگر کام نظرانداز کر دیا جاتا ہے یا اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ قتیل شفائی نے ان گنت فلمی گیت تخلیق کئے لیکن ان کی بے شمار غزلیات کا ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کے 22 شعری کلیات ہیں۔ انہوں نے بے پناہ لکھا اور اپنی فنی عظمت کا ایسا سکہ جمایا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ تنویر نقوی، سیف الدین سیف اور کلیم عثمانی جیسے شعرا کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔

بھارت میں ساحر لدھیانوی مجروح سلطانپوری اور جاوید اختر کے والد جان نثار اختر اور کیفی اعظمی نے بھی بہترین نغمات لکھے اور غزل اور نظم میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ اسی طرح شکیل بدایونی کا نام آتا ہے۔ ہمیں ان کے لازوال فلمی گیت تو یاد آ جاتے ہیں لیکن ہم ان کی دیگر شاعری شعوری یا غیر شعوری طور پر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ شکیل بدایونی کا شمار برصغیر کے نامور گیت نگاروں میں ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ وہ ایک منجھے ہوئے غزل گو بھی تھے۔ 

ایسے غزل گو جنہوں نے خیال کی ندرت اور احساس کی شدت کو اپنی غزلوں میں سب سے زیادہ اہمیت دی انہوں نے غزل میں نئے امکانات اور موضوعات تلاش کئے۔ 3 اگست کو بدایوں (بھارت) میں پیدا ہونے والے شکیل کے والد محمد جمال احمد سوختہ قادری کی یہ دلی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا علم کی دولت سے مالا مال ہو۔ اسی لیے انہوں نے گھر میں ہی اپنے بیٹے کے لیے عربی، اردو، فارسی اور ہندی کی ٹیوشن کا انتظام کیا۔ اکثر دوسرے شعراء کی طرح انہیں شاعری ورثے میں نہیں ملی تھی ان کے ایک دور کے رشتہ دار ضیا القادری بدایونی مذہبی شاعر تھے۔ شکیل پر ان کے گہرے اثرات تھے۔ 

بدایوں کا اس وقت کا ماحول انہیں شاعری کی طرف لے گیا۔ 1936 میں جب انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قدم رکھا تو انہوں نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان کی بہت پذیرائی کی گئی اور تھوڑے عرصے میں ہی ان کے نام کی گونج ہر طرف سنائی دینے لگی۔ 1940 میں انہوں نے اپنی دور کی رشتہ دار  سے شادی کر لی۔ بی اے کرنے کے بعد وہ دہلی چلے گئے جہاں وہ ایک محکمے میں ملازمت کرنے لگے۔ لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ وہ مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ 

ان کی شہرت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا یہ ان شعرا کے لیے بڑا سازگار دور تھا جو پسے ہوئے طبقات کے لیے لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ان طبقات کی ترقی اور معاشرے کی بہتری بھی ان کی شاعری کا اہم وصف تھا۔ لیکن شکیل کا شعری مزاج سب سے مختلف تھا۔ ان کی شاعری میں رومانویت بہت تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے انہوں نے اپنے اشعار میں اپنا دل رکھ دیا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے۔ میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں مجھے فخر ہے میری شاعری میری زندگی سے جدا نہیں علی گڑھ میں قیام کے دوران شکیل بدایونی نے حکیم عبدالوحید اشک بجنوری سے اردو شاعری سیکھی۔ 1944 میں وہ ممبئی چلے گئے۔ 20 اپریل 1970ء کو یہ نادر روزگار شاعر ذیابیطس کی وجہ سے اس جہان فانی سے کوچ کر گیا ۔ شکیل بدایونی کو فراموش کیا جا سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔

ﺍﮮ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﭘﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﯾﺎ
ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﺝ ﺗﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﭘﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﯾﺎ

ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺷﺎﻡ ﺍُﻣﯿﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﺁﺝ ﮐﭽﮫ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺷﺎﻡ ﭘﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﯾﺎ

ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮐﺎ ﻣﺎﺗﻢ، ﮐﺒﮭﯽ ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮔِﻠﮧ
ﻣﻨﺰﻝِ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﮔﺎﻡ ﭘﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﯾﺎ

ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮﻧﮯ ﺩﯾﺎ میرﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺮﺍ
ﺳﺎﻗﯿﺎ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﺳﯽ ﺟﺎﻡ ﭘﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﯾﺎ

ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﮨﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﻧﻮﺣﮧ ﮔﺮﯼ
ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮔﺮﺩﺵ ﺍﯾﺎﻡ ﭘﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﯾﺎ

ﺟﺐ ﮨﻮﺍ ﺫﮐﺮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺷﮑﯿﻞ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝِ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﭘﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﯾﺎ

ﺷﮑﯿﻞ ﺑﺪﺍﯾﻮﻧﯽ

عبدالحفیظ ظفرؔ


Post a Comment

0 Comments