سید مودودی کو ہم سے جدا ہوئے 38 سال بیت گئے ہیں۔ ان کی فکر آج چہار عالم میں پھیل چکی ہے۔ سید مودودی کے افکار ، ان کی حیات ، خدمات اور احیائے اسلام ، اقامت دین کی جدوجہد کے تمام پہلوؤں کو آج کل سے زیادہ محفوظ کرنے اور نئی نسل تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ 38 برس گزرنے کے بعد نئی نسل تک ان کی فکر اور احیائے اسلام کے لیے جدوجہد کو منتقل کرنا جہاں ایک ضرورت ہے وہاں سید مودودی کا ہم پر قرض ہے۔ بلاشبہ اس حوالہ سے مولانا مودودی پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے رفقا نعیم صدیقی ، سید اسعد گیلانی ، آباد شاہ پوری ، رفیع الدین ہاشمی اور سلیم منصور خالد اور دیگر احباب نے بہت عمدہ کتابیں لکھی ہیں جو ہمارے لیے بہت قیمتی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہیں.
لیکن ان پر سوانحی رنگ غالب ہے تاہم ادبیات مودودی کے نام سے پروفیسر خورشید احمد صاحب نے ایک گراں قدر کاوش کی تھی جس کے تحت مولانا مودودی کے ادب اور ان کے طرز نگارش کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا، جس میں معروف اہل قلم کی تحریریں پیش کی گئیں اور مولانا مودودی کے طرز نگارش کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا۔ مولانا مودودی کے افکار اور ان کی جدوجہد اور لٹریچر تو زیر بحث آتے رہے ہیں لیکن مولانا مودودی بحیثیت نثر نگار کا جس علمی انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت تھی اس طرف کم توجہ دی گئی۔ ڈاکٹر محمد جاوید نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جو کہ خود مولانا مودودی کے ہم عصر اور ان کے رفقا میں سے ہیں، کی نگرانی میں اس موضوع پر کام کیا اور اس کا حق ادا کیا۔
کسی بھی شخصیت کے کام کا صحیح معنوں میں اندازہ اسی وقت لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پس منظر اور حالات سامنے ہوں جن میں انہوں نے کام کیا اور جدوجہد کی۔ سید مودودی نے جس عہد میں علمی و فکری جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنے افکار پیش کرنے کے لیے قلمی میدان چنا وہ کٹھن دور تھا۔ ایک طرف مغربی تہذیب کی بالادستی اور جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا جس نے مسلمانوں کو سحر زدہ کر رکھا تھا اور شکست خوردگی کی کیفیت سے مسلمان دوچار تھے۔ ایسے میں ایک ایسے فرد کی ضرورت تھی جو جدید و قدیم پر نظر رکھتا ہو اور پورے اعتماد سے مغربی افکار کا منہ توڑ جواب دے سکے۔
ایسے میں سید مودودی کی شخصیت ابھرتی ہے اور امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ مولانا کی نثر کا ایک نمایاں پہلو تفسیر القرآن اور سیرت نگاری ہے۔ تفہیم القرآن جہاں شاہکار ہے، وہاں سیرت نگاری بھی انفرادیت کی حامل ہے۔ آپ نے سیرت نگاری کو واقعاتی انداز کے بجائے تحریکی انداز میں پیش کیا ہے جو ایک منفرد انداز تحریر ہے۔ یہ بلاشبہ تفسیر اور سیرت میں مولانا مودودی کا اجتہاد ی کارنامہ ہے۔ آج کے دور میں مولانا مودودی کی فکر کی روشنی میں امت کے بکھرے شیرازہ کو اکٹھا کرنے کے لیے اتحاد امت ، نظام ریاست میں غلبہ دین کے لیے طاقت کی بجائے دعوت و تبلیغ ، ذہنی و فکری اصلاح اور افکار کی تطہیر کے ذریعے پرامن سیاسی ، جمہوری ، آئینی جدوجہد کے ذریعے قیادت و نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے۔ عالمی استعماری قوتیں ناکام ہو رہی ہیں۔ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے ، اسلامی تحریکوں پر اگرچہ ابتلاو آزمائش کا دور ہے لیکن یہ امر نوشتۂ دیوار ہے کہ مستقبل کا نظام قرآن وسنت کی تعلیمات اور مسلمانوں کی بیدار قیادت سے وابستہ ہے۔
0 Comments