اردو کی معروف ترین لغت فرہنگِ آصفیہ کا ایک نیا تصحیح شدہ ایڈیشن شائع ہو گیا ہے جسے اردو دان طبقوں نے لغت نویسی کے میدان میں سنگِ میل قرار دیا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ صرف لغت ہی نہیں ہے، بلکہ اسے اردو تہذیب کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ بعد میں آنے والی تمام اردو لغات ایک طرح سے فرہنگِ آصفیہ ہی کی توسیع یا تلخیص ہیں۔ اب اس عظیم الشان لغت کا جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن شائع ہوا ہے جسے یاسر جواد اور رفاقت راضی نے بڑی دقتِ نظر سے مرتب کیا ہے۔ انھوں نے اندراجات اور تشریحات سمیت 20 لاکھ الفاظ پر مبنی اس ضخیم لغت کو شائع کروا کر وہ کام سر انجام دیا ہے جو بڑے بڑے اداروں سے نہ ہو سکا۔
فرہنگِ آصفیہ اردو کی پہلی باقاعدہ مکمل لغت ہے۔ اس سے پہلے اردو-فارسی اور اردو-انگریزی لغات شائع ہو چکی تھیں، جب کہ اردو محاورات کے چند مجموعے بھی چھپ چکے تھے (مثال کے طور پر منشی چرن جی کی 'مخزن المحاورات،' امتیاز علی بیگ کی 'مخزنِ فوائد' اور خود سید احمد دہلوی کی 'مصطلحاتِ اردو' وغیرہ)، لیکن باقاعدہ اردو-اردو لغت کا وجود نہیں تھا۔ فرہنگِ آصفیہ کے مولف مولوی سید احمد دہلوی 1844 میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ نوجوانی میں انھیں سات برس تک ایک انگریز مستشرق ڈاکٹر فیلن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو اردو انگریزی لغت مرتب کر رہے تھے۔ یہیں سے مولوی صاحب کو جدید لغت نگاری کے اصولوں کے تحت اپنی لغت مرتب کرنے کا خیال آیا۔ 1878 میں انھوں نے 'ارمغانِ دہلی' کے نام سے رسالے کی شکل میں لغت طبع کرنے کا آغاز کیا۔
بعد میں نظام دکن کی سرپرستی میسر آگئی تو انھوں نے اس لغت کو نظام دکن کے لقب آصف کی نسبت سے فرہنگِ آصفیہ کے نام سے چھاپنا شروع کیا۔ فرہنگِ آصفیہ صرف لغت ہی نہیں ہے بلکہ سید احمد دہلوی نے بعض اندارجات کے تحت بےحد تفصیل سے انسائیکلوپیڈیا کے انداز میں معلومات فراہم کی ہیں۔ مثال کے طور 'اولیائے ہند' کے تحت 43 مختلف صوفیا کے تفصیلی حالاتِ زندگی درج ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لغت انیسویں صدی کی گنگا جمنی تہذیب کا مرقع ہے جس میں اس دور کے رسم و رواج، ملبوسات، شعری، ادبی و علمی اصطلاحات، زیوارت، خوراک و مشروبات، نشت و برخاست وغیرہ سے متعلق الفاظ کا ایسا ذخیرہ ملتا ہے جو کہیں اور دستیاب نہیں ہے۔
لغت نویسی کو 'تھینک لیس جاب' کہا جاتا ہے، کیوں کہ اگر ہزار میں سے ایک لفظ چھوٹ جائے تو لغت نگار کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ چنانچہ قاضی عبدالودود، شمس الرحمٰن فاروقی اور دوسرے زبان دانوں نے مولوی صاحب کو لغت میں بعض الفاظ رہ جانے کے باعث کڑی تنقید کا ہدف بنایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف الفاظ چھوڑنے پر ہی نہیں، فرہنگِ آصفیہ کو بعض الفاظ شامل کرنے پر بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ بابائے اردو مولوی عبدالحق فرماتے ہیں: 'فحش الفاظ جمع کرنے میں خاص اہتمام کیا ہے اور کوئی ایسا فحش لفظ یا محاورہ نہیں ہے جو ان کی نظر سے بچا ہو جو ڈاکٹر فیلن کے فیض کا اثر معلوم ہوتا ہے۔' لیکن اس تمام تر تنقید کے باوجود اس سے انکار کرنا مشکل ہے کہ فرہنگِ آصفیہ اردو کا اہم لسانی، علمی، ثقافتی اور سماجی سرمایہ ہے اور اشاعت کے سو برس بعد آج بھی اسے سند کا درجہ حاصل ہے۔ چنانچہ تمام تر اعتراضات کے باوجود بابائے اردو یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ 'اردو لغات پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں جامع، مکمل اور سب سے کارآمد مولوی سید احمد دہلوی کی فرہنگِ آصفیہ ہے۔'
اس عظیم الشان لغت کی پہلی دو جلدیں 1888 میں، تیسری جلد 1898 میں، جب کہ چوتھی اور آخری جلد 1902 میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد انڈیا اور پاکستان میں اس لغت کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے لیکن حیرت انگیز طور پر انھیں ہوبہو چھاپ دیا گیا اور اصل لغت کے آخر میں جو اغلاط نامہ دیا گیا تھا، وہ بھی ہر بار جوں کا توں شائع کیا جاتا رہا۔ گذشتہ ماہ شائع ہونے والے فرہنگِ آصفیہ کے کمپیوٹرائز ایڈیشن کے مرتب یاسر جواد ہیں۔ اور اس میں پہلی بار یہ تمام مسائل حل کر دیے گئے ہیں۔ یاسر ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط سے بھی واقف ہیں، انھوں کئی ایسی پیچیدہ گتھیاں حل کیں جو اصل لغت کے کاتبوں کی لاپروائی کی وجہ سے مشکلات کا باعث بن رہی تھیں۔
لغت کے شریک مرتب رفاقت راضی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'لغت میں 22 ہزار کے قریب اشعار بطورِ سند درج ہیں، جو میر اور غالب دونوں کے تمام کلام میں شامل اشعار کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔ ان سب اشعار کے اصل ماخذات تک پہنچنا آسان کام نہیں تھا کیوں کہ بیشتر شعرا کے دیوان ہی شائع نہیں ہوئے۔ 'اس کے باوجود پوری کوشش کی گئی ہے کہ ہر شعر کو اصل متن کے ساتھ درج کیا جائے، اور فرہنگ میں کہیں کہیں جو اغلاط در آئی ہیں، مثلاً میر کا شعر مصحفی کے نام سے درج ہو گیا ہے، وغیرہ، اسے بھی درست کر دیا جائے۔' الفیصل ناشرانِ کتب کی جانب سے اس لغت کی اشاعت کے بعد یہ بات اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ نہ صرف فرہنگِ آصفیہ کا اب تک سب سے مستند نسخہ ہے بلکہ اس کی املا بھی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھی گئی ہے، جس سے یہ انمول خزانہ نوری نستعلیق رسم الخط میں کمپیوٹرائزڈ فارمیٹنگ اور دیدہ زیب طباعت کی بدولت اب 21ویں صدی کے اردو قارئین کی دسترس میں آ گیا ہے۔
0 Comments