ساحر لدھیانوی کا شمار برصغیر کے ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے سماجی اور معاشرتی زندگی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ انہوں نے غزلیں بھی کہیں، لیکن ان کی نظموں نے انہیں بام عروج تک پہنچایا۔ اُن کی بعض نظمیں زبان زدِعام و خاص ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے اُردو شعرا میں ساحر لدھیانوی نے اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ اُن کی شاعری کی مقبولیت کی بنیادی وجہ ان کی شاعری میں عام لوگوں کے دُکھ، محرومی و نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ ان کی شاعری، دراصل معاشرے کے محروم ، مظلوم، پسے ہوئے، غربت زدہ، یاس کے صحرا میں چلتے ہوئے مسافروں کا نوحہ ہے ۔ اُن کے اشعار میں غریبوں، مظلوموں، مزدوروں اور مزارعوں کا دل دھڑکتا ہے۔
ساحر لدھیانوی کا اصل نام عبدالحئی تھا آپ آٹھ مارچ 1921ء کو لدھیانہ کے ایک متمول جاگیر دار خاندان میں پیدا ہوئے مگر انہیں خوشحالی و فارغ البالی نصیب نہ ہو سکی۔ چودھری فضل محمد کی واحد نرینہ اولاد ہونے کے باوجود حالات کی ستمگری کے باعث وہ اپنے والد کے پیار اور ددھیال کے دیگر عزیزوں کی محبت سے محروم رہے بعد میں اُن کی محرومی، احتجاج بن کر اُن کی شاعری کا حصہ بن گئی۔ اُن کی خدمات کے اعتراف میں بھارتی حکومت نے انہیں سب سے بڑا سرکاری ایوارڈ ’’پدما شری‘‘ نوازا۔ لدھیانہ کی ایک سڑک کا نام ’’ساحر لدھیانوی روڈ‘‘بھی رکھا گیا۔ ساحر لدھیانوی کی لکھی ہوئی غزلیں، نظمیں، گیت اور نغمے اتنے مقبول ہوئے کہ آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں دلوں پر اُن کی حکمرانی ہے۔ ان کی شاعری کا پہلامجموعہ ’’تلخیاں‘‘ 40ء کی دہائی کے وسط میں شائع ہوا لیکن اُن کی شاعری کتاب سے پہلے دِلوں کی دھڑکن بن چکی تھی۔ بعد ازاں یہ فلم کے ذریعے ہر خاص و عام تک پہنچی۔ اس کتاب نے انہیں بامِ عروج پر پہنچا دیا۔
ساحرکی شاعری معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف وہ پُکار اور توانا آواز تھی جسے ہر دِل نے اپنی کہانی سمجھا، عوامی جذبات کو جب لفظوں کی صورت میں ساحر نے ڈھالا تو ’’تلخیاں‘‘، ’’پر چھائیاں، ’’آئو کہ خواب بُنیں‘‘ اور گاتا جائے بنجارہ کی صورت میں بے مثال شاعری سامنے آئی۔ تاج محل ’’چکلے ، شہکار، کبھی کبھی ‘‘ اِن جیسی دیگر کئی نظمیں جو اُردو ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں۔
چند اشعار نمونہ کے طور پر
تم چلی جائو گی پرچھائیاں رہ جائیں گی
کچھ نہ کچھ حُسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی
تاج تیرے لیے اک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیِ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میرے محبوب کہیں اورملاکر مجھ سے
یہ چمنِ زار، یہ جمنا کا کنارا
یہ محل یہ منقش در و دیوار، یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کرمجھ سے
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمنائوں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود اُمیدوں پہ ندامت ہے مجھے
’’جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں‘‘ کے مصداق، آزادی، مساوات، انصاف اور انسانیت کے لئے ساحر زندگی بھر لڑتا رہا۔ آواز بلند کرتا رہا، وہ ہمیشہ مردِ مجاہد رہا، وہ ظلم کے خلاف لکھتا رہا۔ ساحر نے سماج کے اُن تاریک پہلوئوں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جو انسانیت کے چہرے پر بد نما داغ ہیں۔ ساحر کی شاعری محض خیالات کی ترسیل ، عقائد کی تبلیغ اور سیاسی پروپیگنڈے کے لئے نہیں، بلکہ اُنہوں نے اپنے محسوسات اور جذبات کی صورت گری کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے تشبیہ، استعارہ اور کنائے کی زبان استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اظہار کرنے کے بیانیہ ا ور خطیبانہ پیرایوں سے بھی کام لیا۔ اس کی روح ہمیشہ محبت کی پیاسی رہی۔ ساحر نے اس محرومی کو ختم کرنے کے لئے امرتا پریتم سے لیکر سدھا ملہوتراتک متعدد عشق کئے مگر مستقل روحانی سکون اُسے میسر نہ آ سکا۔
کتنی بے کار امیدوں کا سہارا لیکر
میں نے ایوان سجائے تھے
کسی کی خاطر کتنی بے ربط تمنائوں کے
مبہم خاکے اپنے خوابوں میں بسائے تھے
کسی کی خاطر لاکھوں دلوں پر حکمرانی کرنے والا شاعر 59 سال 7 ماہ اور سترہ دِن اپنی حیاتِ فانی گزار کر 25 اکتوبر 1980ء کو راہی ملک ِعدم ہوا ۔
0 Comments