اختر حسین جعفری کا شمار پاکستان کے معروف شعرا ء میں ہوتا ہے۔ ذیل میں ان کی لکھی گئی کتاب سے کچھ پیراگراف شائع کئے جا رہے ہیں:
میں 15 اگست 1932 کو ہوشیارپور کے ایک قصبہ میں پیدا ہوا۔ یہاں میرے والد بسلسلہ ملازمت تعینات تھے۔ چوتھی جماعت تک تعلیم وہاں کے ایک غیر معروف گائوں موضع لسوی سے حاصل کی۔ اسی دوران والدہ کے انتقال کے بعد میں اپنے دادا (جو ضلع گجرات میں مقیم تھے) کے پاس چلا آیا اور وہاں ایک ہندو سکول میں داخلہ لے لیا۔ اس سکول میں ایک ہندو استاد پنڈت درگا پرشاد تھے جو ہمیں اردو اور فارسی پڑھاتے تھے۔ میرا جو اردو ادب سے رشتہ قائم ہوا وہ انہی کی وجہ سے ہوا۔ پر نہ صرف داخلہ ملا بلکہ وہ تمام مراعات بھی ملیں جو اچھے ہندو طلباء کو سکول کی طرف سے ملتی تھیں۔
اس سکول میں مسلمان طلباء کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ یہاں مسلمان طلباء کو دینیات بھی پڑھائی جاتی تھی۔ ماسٹر درگا پرشاد اردو اور فارسی کے علاوہ دینیات بھی پڑھاتے تھے۔ ہمیں افسوس ہوتا تھا کہ ہندو طلباء معاشی اور معاشرتی طورپر ہم سے بہتر تھے۔ اچھا لباس پہن کر آتے تھے۔ ہم ہندوئوں کے سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اور ان سے مراعات حاصل کرنے کے باوجود اس احساس کو اپنے دل سے کسی صورت نہ نکال سکے کہ ہم میں اور ہندو قوم میں فرق ہے جس کو دور کرنے کیلئے کسی نہ کسی واضح سیاسی عمل کی ضرورت ہے چنانچہ پاکستان کے حوالے سے میری ہندو دوستوں کے ساتھ بحث ہوتی تھی۔ اگرچہ ان دنوں پاکستان کے فلسفہ کے پس منظر سے کلی آگاہی نہ تھی۔
ان ہندو دوستوں میں میرے ساتھ سکول کی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑی بھی تھے جو ہندوستان کی تقسیم کے یکسر خلاف تھے۔ میں اپنے ہندو دوستوں کے ساتھ اکثر کانگریسی لیڈروں کی تقاریر سننے جایا کرتا تھا۔ اس مفاہمت کی فضا کے باوجود میرے دل سے میرے ہندو دوست ایک علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی ضرورت کے تصور کو نہ نکال سکے۔ بچپن میں فٹ بال کھیلا کرتا تھا۔ میرا سکول کی ٹیم کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار ہوتا تھا۔ ہاکی ٹیم میں مجھے بارہویں کھلاڑی کے طور پر شامل کیا جاتا تھا۔ مجھے سکول کے زمانے میں زبانیں سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ انگریزی، اردو اور فارسی میں بہت دلچسپی تھی اور ان میں ہمیشہ امتیازی حیثیت حاصل کرتا۔
ریاضی اور سائنس سے واجبی سا تعلق تھا۔ سکول کے زمانے میں مجھے اردو اور فارسی ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ میرے اساتذہ مجھے ہونہار طالب علموں میں شمار کرتے تھے۔ میں سکول کے زمانے میں شعر لکھتا تو نہیں تھا البتہ وزن میں پڑھتا تھا۔ شاعری ایف اے کے بعد کی۔ میں سکول میں تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیا کرتا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ میں بچپن میں بھی شرارتیں نہیں کیا کرتا تھا۔ مگر شرارتی بچوں کا دوست ضرور تھا۔ شرارتی بچے مجھے اچھے لگتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہم سکول جا رہے تھے تو میرے ساتھی نے ایک موٹے آدمی کے پیٹ میں چٹکی لی ۔ وہ ایک ہندو دکاندار تھا۔ اس نے ہم دونوں کو اپنی دکان پر بیٹھا لیا اس نے ہمیں جسمانی اذیت دی۔ جسمانی اذیت کے باوجود اس شرارت کی خوشی بڑھاپے میں بھی محسوس کرتا ہوں۔
میرے والد ادیب یا شاعر تو نہیں تھے مگر ادب کے ساتھ مطالعاتی حد تک ان کا مضبوط تعلق تھا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو والد صاحب کے ہاتھ میں کتاب دیکھی۔ شاعری میں وہ غالبؔ سے زیادہ ذوقؔ کو پسند کرتے تھے۔ اکثر فارغ وقت میں وہ ذوقؔ کی غزلیں مجھے سنایا کرتے۔ والد صاحب کو فارسی ادب سے بھی بہت دلچسپی تھی۔ قدسی مشہدی کی رباعی نماز فجر کے بعد پڑھتے تھے اور ہمیں سنایا کرتے تھے۔ آپ کو بچن کا ایک عجیب واقعہ سناتا ہوں۔ سرسولی گائوں میں تقریباً کبھی مکانات کچے تھے سوائے ایک مکان کے جو میرے والد کو سرکاری حیثیت کی بنا پر رہنے کو ملا تھا۔ اس مکان کے بارے میں وہاں یہ عام فضا تھی کہ اس کے بالمقابل بہت پرانے پیپل پر ایک آسیب کا ڈیرا ہے اور جو کوئی اس پختہ مکان میں رہتا ہے وہاں موت کا ہونا ناگزیر خیال کیا جاتا تھا۔
چنانچہ میرے والد کو بھی لوگوں نے اس مکان میں رہائش اختیار کرنے پر منع کیا۔ مگر وہ پڑھے لکھے اور روشن خیال آدمی تھے۔ اس لیے انہوں نے اس افواہ پر کوئی توجہ نہ دی اور اسی مکان میں رہائش پذیر رہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسی مکان میں ہماری رہائش کے دو سال کے اندر اندر بغیر کسی ظاہری بیماری کے میرے والدہ ایک روز اچانک انتقال کر گئیں۔ مگر ان کے انتقال کے باوجود میرے والد نے اس مکان سے سکونت ترک نہ کی۔ میں آخر میں بچوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ اس ملک کے لیے زندہ رہو، اور اسی کے لیے مرو… یہ ملک بڑی مشکل سے حاصل کیا ہے۔ اس ملک کی سا لمیت اور حفاظت ہمارا فرض ہے۔
0 Comments