آٹھویں کلاس کے سب لڑکے مجھ سے بڑے تھے۔ میرا قد ان سب سے چھوٹا تھا… میں اس بات کو شدت سے محسوس کرتا اور چاہتا تھا کسی طرح میرا قد بڑھ جائے۔ قد بڑھانے کی غرض کے لیے میں لکڑی کی سیڑھی کا ڈنڈا پکڑ کر لٹکا کرتا تھا۔ یہ ورزش میں صبح سویرے ضرور کرتا، ساتھ ہی اپنا قد بھی ناپتا رہتا تا کہ پتا چل سکے کہ قد بڑھ رہا ہے یا نہیں۔ قد ناپنے کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ہمارے گھر کے ایک کمرے سے ملی ہوئی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی۔ اس کی چھت اتنی اونچی تھی کہ میں اس میں کھڑا ہو جاتا تھا تو میرا سر چھت سے نہیں لگتا تھا، میرے سر سے کچھ ہی اوپر وہ چھت تھی۔۔۔ میں درمیان میں اپنے سر پر ہاتھ کھڑا کر کے دیکھتا کہ میرا ہاتھ چھت کی کڑی سے لگا یا نہیں۔
یہ میرا روز کا معمول تھا۔ ایک روز لکڑی کی سیڑھی پر لٹکنے کے بعد کوٹھری میں گیا۔ اب سیدھا کھڑا ہوا تو ہاتھ اٹھا کر ناپنے کی کوشش سے پہلے ہی میرا سر چھت کی کڑی سے جا لگا …میں حیرت زدہ رہ گیا۔ خوشی سے پھول گیا اور لگا چلانے:
’’امی جان! میرا قد بڑھ گیا ۔۔۔ میرا قد بڑھ گیا۔‘‘
میرے چلانے کی آواز سن کر امی جان گھبرا کر میری طرف آئیں اور بولیں:
’’کیا ہوا ۔۔۔ کیوں چیخ رہا ہے۔‘‘
’’امی! میرا قد بڑھ گیا ہے ۔۔۔ یہ دیکھیے ۔۔۔ میں روزانہ اس کوٹھڑی میں کھڑے ہو کر اپنا قد ناپتا تھا ۔۔۔ لیکن سر چھت سے نہیں لگتا تھا ۔۔۔ آج لگ گیا ہے ۔۔۔ اس کا مطلب ہے ۔۔۔ میرا قد بڑھ گیا ہے۔‘‘
میری بات سن کر امی جان مسکرا دیں۔ انہوں نے کہا:
’’بے وقوف! ۔۔۔ اتنی جلدی قد نہیں بڑھا کرتے ۔۔۔ اس چھت کی ایک کڑی چٹخ کر ٹیڑھی ہو گئی ہے۔۔۔ تمھارا سر اس سے جا لگا ہے۔‘‘
’’اوہ!‘‘ میرے منہ سے مارے مایوسی کے نکلا اور اور امی جان ہنسنے لگیں۔
انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا ۔۔۔ قد اتنی جلدی نہیں بڑھا کرتے۔
اشتیاق احمد
(یہ کہانی 1960ء میں رسالہ ’’قندیل‘‘ میں شائع ہوئی)
0 Comments