ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سیکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو اک اک دوکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں تول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا ننھا سا لڑکا کہاں
( ابنِ انشا )
0 Comments