جب کوئی جگہ کئی برسوں سے محاصرے میں ہو اور گلیوں میں بھوک کا پہرہ ہو،
تو آپ کے خیال میں لوگوں میں کتابوں میں بہت کم دلچسپی ہوگی۔ لیکن کتابوں کے دلدادہ کچھ افراد نے شام میں بموں کا نشانہ بننے والی عمارات سے کتابوں کا ذخیرہ جمع کر کے ایک خفیہ لائبریری قائم کی ہے اور اس سے فیض یاب ہونے کے لیے وہ گولیوں اور بموں سے بچتے بچاتے یہاں تک پہنچتے ہیں۔ یہ لائبریری دارالحکومت دمشق کے نواحی قصبے داریا میں بم سے تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے ایک تہہ خانے میں قائم ہے جو اس قصبے میں محصور بہت سارے لوگوں کو امید فراہم کرتی ہے۔
اس لائبریری کے بانی اور سابق سول انجینئرنگ کے طالب علم انس احمد بتاتے ہیں: ’ہم نے دیکھا کہ ایک نئی لائبریری کا قیام نہایت اہم ہے تاکہ ہم اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ دیگر بہت ساری عمارات کی طرح اسے بموں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہم نے اسے ایک تہہ خانے میں قائم کیا ہے۔‘ داریا کا محاصرہ چار سال قبل حکومتی اور صدر بشار الاسد کی حامی فوجوں کی جانب سے شروع ہوا تھا۔ اس وقت سے انس اور دیگر رضاکاروں، جن میں سے بیشتر سابق طالب علم تھے اور جنگ کی وجہ سے ان کی پڑھائی میں تعطل آ گیا تھا، نے تقریباً ہر موضوع پر 14,000 کے قریب کتابیں جمع کیں۔
اس عرصے کے دوران تقریباً 2,000 افراد کی ہلاکت ہوئی، جن میں سے بیشتر عام شہری تھے لیکن انس اور ان کے دوستوں نے اپنا کام جاری رکھا اور گلیوں کی خاک چھان کر لائبریری میں مزید کتابیں جمع کرتے رہے۔ انس کا کہنا ہے ’بہت ساری کتابیں بموں کا نشانہ بننے والے گھروں سے اکٹھی کی گئیں۔ ان میں سے بہت ساری جگہیں جنگی محاذوں میں تھیں، چنانچہ انھیں وہاں سے جمع کرنا خطرناک تھا۔‘ وہ کہتے ہیں ’ہمیں نشانہ بازوں سے چھپنے کے لیے بم کا نشانہ بننے والی عمارتوں میں جانا پڑتا ہے۔ ہمیں بہت محتاظ رہنا پڑتا ہے کیونکہ بعض اوقات نشانہ باز آپ پر نظریں جمائے ہوتے ہیں اور وہ آپ کے اگلے اقدام کی قیاس آرائی کر لیتے ہیں۔‘ داریا کی 80,000 آبادی میں سے 8,000 نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن اب کوئی بھی یہ علاقہ چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔
رواں سال مئی میں جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد تقریباً ہر روز یہاں بمباری ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے عرصہ دراز سے یہاں صحافیوں کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ میں نے سکائپ کے ذریعے انٹرویوز کیے اور اس دوران بھی بمباری کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ اس لائبریری کا مقام خفیہ ہے کیونکہ انس اور دیگر لوگوں کو ڈر ہے کہ داریا پر حملہ کرنے والوں کو اس کے بارے میں علم ہوا تو وہ اس کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ لائبریری ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں تک پہنچنا بچوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ایک چھوٹی سی لڑکی اسلام نے مجھے بتایا کہ وہ زیادہ تر وقت گھر کے اندر کھیل کھیلتے ہوئے اور اپنی دوستوں کی جانب سے لائبریری کی کتابیں پڑھتے ہوئے گذارتی ہے جس سے اس کو بھوک کی شدت نظرانداز کرنے میں مدد ملتی ہے.
اس نے مجھے بتایا کہ انھیں بالکل معلوم نہیں ہے یہ خون خرابہ کیوں ہے۔ اس کا کہنا ہے ’میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ مجھے بھی گولی مار دی جائے گی۔‘ ایک اور بچہ ہر روز لائبریری آتا ہے۔ 14 سالہ امجد کا کہنا ہے کہ ادھر ادھر گھومنے کی بجائے لائبریری زیادہ محفوظ ہے اور کتابوں میں دلچسپی کے باعث اسے ’ڈپٹی لائبریرین‘ کا عہدہ بھی دیا گیا ہے۔ انس نے بتایا کہ یہاں زیادہ پسند کی جانے والی کتابیں مشہور عرب ادیبوں کی ہیں جن میں امیر الشعرا کہلائے جانے والے احمد شوقی یا شامی ادب التانوی شامل ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا مغربی ادیبوں کی کتابیں میں بھی دلچسپی لی جا رہی ہے۔
ایک اور سابق طالب علم عبدالباسط الاحمر کا کہنا ہے ’میں نے کچھ فرانسیسی ادیبوں کی کتابیں پڑھی ہیں لیکن مجھے سب سے زیادہ ’ہملٹ ‘پسند آیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’شیکسپیئر کا اسلوب بہت خوبصورت ہے۔ وہ ہر چیز کے بارے میں تفصیل سے بیان کرتے ہیں جیسے میں سینیما میں فلم دیکھ رہا ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا ’اس لائبریری نے مجھے دوبارہ زندگی فراہم کی ہے جیسے جسم کو خوراک کی ضرورت ہے اسی طرح روح کو کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
مائیک تھامسن
بی بی سی نیوز
تو آپ کے خیال میں لوگوں میں کتابوں میں بہت کم دلچسپی ہوگی۔ لیکن کتابوں کے دلدادہ کچھ افراد نے شام میں بموں کا نشانہ بننے والی عمارات سے کتابوں کا ذخیرہ جمع کر کے ایک خفیہ لائبریری قائم کی ہے اور اس سے فیض یاب ہونے کے لیے وہ گولیوں اور بموں سے بچتے بچاتے یہاں تک پہنچتے ہیں۔ یہ لائبریری دارالحکومت دمشق کے نواحی قصبے داریا میں بم سے تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے ایک تہہ خانے میں قائم ہے جو اس قصبے میں محصور بہت سارے لوگوں کو امید فراہم کرتی ہے۔
0 Comments