Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

آخری چند دن دسمبر کے

ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں

کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی

ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے

کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی

اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر

رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں

دوریاں دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس

مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں

حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر

چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
ہر دسمبر کے آخری دن میں

ہر برس کی طرح اب بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے

کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے

کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں

گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں

کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں

ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے

اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری، دوست دیکھتے ہونگے

ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا

اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا

امجد اسلام امجد 
 

Post a Comment

0 Comments