اگر کبھی میری یاد آئے
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے
تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا، میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو
تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ
رک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
امجد اسلام امجدؔ
0 Comments