یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دئیے ہیں بھرا نہیں کرتے
ہزار جال لئے گھومتی پھرے دنیا
تیرے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے
یہ آئینوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے
وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے
جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے
ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے؟
تمام غنچے تو امجد کھلا نہیں کرتے
امجد اسلام امجد
0 Comments