میں غزل کہوں تو کیسے کہ جدا ہیں میری راہیں
میں غزل کہوں تو کیسے کہ جدا ہیں میری راہیں
مرے ارد گرد آنسو، مرے آس پاس آہیں
نہ وہ عارضوں کی صبحیں نہ وہ گیسوؤں کی شامیں
کہیں دور رہ گئی ہیں مرے شوق کی پناہیں
نہ فریب دے سکے گی ہمیں اب کسی کی چاہت
کہ رلا چکی ہیں ہم کو تری کم سخن نگاہیں
کہیں گیس کا دھواں ہے کہیں گولیوں کی بارش
شبِ عہدِ کم نگاہی تجھے کس طرح سراہیں
کوئی دم کی رات ہے یہ، کوئی پل کی بات ہے یہ
نہ رہے گا کوئی قاتل، نہ رہیں گی قتل گاہیں
میں زمیں کا آدمی ہوں، مجھے کام ہے زمیں سے
یہ فلک پہ رہنے والے مجھے چاہیں یا نہ چاہیں
نہ مذاق اڑا سکیں گے مری مفلسی کا جالب
یہ بلند بام ایواں، یہ عظیم بارگاہیں
حبیب جالب
0 Comments