ظالم سے مصطفیٰؐ کا عمل چاہتے ہیں لوگ
ظالم سے مصطفیٰؐ کا عمل چاہتے ہیں لوگ
سوکھے ہوئے درخت سے پھل چاہتے ہیں لوگ
کافی ہے جن کے واسطے چھوٹا سا اک مکاں
پوچھے کوئی تو شیش محل چاہتے ہیں لوگ
سائے کی مانگتے ہیں ردا آفتاب سے
پتھر سے آئنے کا بدل چاہتے ہیں لوگ
کب تک کسی کی زلف پریشاں کا تذکرہ
کچھ اپنی الجھنوں کا بھی حل چاہتے ہیں لوگ
بار غم حیات سے شانے ہوئے ہیں شل
اکتا کے زندگی سے اجل چاہتے ہیں لوگ
رکھتے نہیں نگاہ تقاضوں پہ وقت کے
تالاب کے بغیر کنول چاہتے ہیں لوگ
جس کو بھی دیکھیے ہے وہی دشمن سکوں
کیا دور ہے کہ جنگ و جدل چاہتے ہیں لوگ
درکار ہے نجات غم روزگار سے
مریخ چاہتے ہیں نہ زحل چاہتے ہیں لوگ
اعجازؔ اپنے عہد کا میں ترجمان ہوں
میں جانتا ہوں جیسی غزل چاہتے ہیں لوگ
اعجاز رحمانی
0 Comments