Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

مجھے نوبل انعام کی خواہش نہیں

مجھے پوری امید تھی کہ اِمسال ادب کا نوبل انعام اِس فقیر کو دیا جائے گا (یہاں فقیر سے مراد فدوی اور فدوی سے مراد میں خو د ہوں ) لیکن ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی مغربی اداروں نے تعصب سے کام لیتے ہوئے کسی نا معلوم امریکی شاعرہ کو ادب کا نوبل انعام دے دیا ہے ۔ صاحب طرز ادیب اور کالم نگار مسعود اشعر صاحب (اِس پائے کے اب چند لوگ ہی ہمارے درمیان رہ گئے ہیں ) نے اپنے تازہ کالم میں اِس شاعرہ کی نظم کے ایک حصے کا ترجمہ لکھا ہے اور ساتھ ہی پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کو مشورہ دیا ہے کہ اگر نوبل انعام کمیٹی والوں کا دل جیتنا ہے تو اِس قسم کی نظمیں لکھا کرو۔ یہ نظم پڑھ کر مجھے شفیق الرحمن کے مضمون میں جدید شاعری کے نمونے کی ایک نظم یاد آگئی ، وہ بھی کچھ اسی قسم کی تھی ، ملاحظہ ہو: ’’لڑ رہی ہیں بلیاں/اف بلیاں/بل/لیاں/باغ میں اس وقت شاید لڑ رہی ہیں بلیاں/دھندلکا ہے شام کا/وقت ہے آرام کا/کام کا/انعام کا/اور لڑ رہی ہیں بلیاں/ہوں گی شاید چار یہ/یا تین ہوں/لیکن ذرا سا یہ شبہ دل میں ہے میرے بڑھ گیا کہ بلیاں یہ پانچ ہیں/اور چھ تو ہو سکتی نہیں/اور چاندنی سی رات ہے/اور چاند ہے نکلا ہوا/اور چاندنی ہے چار سو/اور چار دن کی چاندنی/اور پھر اندھیری رات ہے/کیا کہہ رہا تھا میں بھلا/افوہ! ابھی تو یاد تھا/اس حافظے کو کیا ہوا/کم بخت سے سمجھے خدا/ہاں مجھ کو یاد آ ہی گیا/کہ لڑ رہی ہیں بلیاں/باغ میں اس وقت شاید لڑرہی ہیں بلیاں۔‘‘

یہ نظم یاد کر کے دل کو کچھ تسلی ہوئی کہ اگر نوبل انعام کے متعصب ججوں نے چھہتر برس قبل اردو شاعری کے اِس شاہکار کو کسی قابل نہیں سمجھا تھا تو آج کے میرے علامتی و انقلابی کالم بھلا کس کھیت کی مولی ہیں۔ اِس کے باوجود نہ جانے کیوں ہر سال مجھے ایک موہوم سی امید ہوتی ہے کہ شاید اِس مرتبہ نوبل انعام والے تعصب کی عینک اتار کر میرے کالم پڑھیں گے مگر افسوس مغربی مفکرین کی دانائی اور انصاف پسندی کے بارے میں میرا انداز ہ غلط نکلا۔ اردو علامتی شاعری کے بانی اور ہمدم دیرینہ جناب عاشق چمٹے والا سے جب میں نے مغرب کی اِس فکری مفلسی کے بارے میں استفسار کیا تو آپ نے چِمٹے سے اپنی کمر پر خارش کرتے ہوئے اپنا ایک علامتی شعر پڑھ کر گویا دریا کوکوزے میں بند کر دیا کہ’’ اے غازی یہ تیرے پراسرا بندے ، جنہیں تو نے بخشا ہے نوبل انعام‘‘!


نوبل انعام کے طریقہ کار کے بارے میں قدرے سیانے دوست سے بات ہوئی تو اُس نے سنجیدگی سے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ ادب کا نوبل انعام دراصل سویڈش اکیڈمی دیتی ہے اور طریقہ کار اِس کا یہ ہے کہ ہر سال یہ ادارہ قریباً چھ ہزار لوگوں سے درخواست کرتا ہے کہ وہ انعام کا حقدار سمجھنے والوں کا نام تجویز کر کے اکیڈمی کو بھیجیں۔ یہ نامزدگیاں کرنے والوں میں کچھ توخود نوبل انعام یافتہ ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ سویڈش اکیڈمی کے ممبران، عالمی شہرت یافتہ ادیب اور دنیا کی نامور جامعات سے وابستہ استاد اور دانشور بھی نوبل انعام کے لیے نامزدگیاں بھیجتے ہیں۔ اِس پورے عمل کے نتیجے میں سو سے اڑھائی سو نامزدگیاں موصول ہوتی ہیں اور پھر نوبل کمیٹی اِن کی چھان پھٹک کر کے کسی خوش قسمت ادیب کو نوبل انعام سے نوازتی ہے۔ اپنے عقل مند دوست کی یہ باتیں سُن کر میں بہت خوش ہوا کہ بظاہر یہ تمام مراحل بہت کٹھن لگتے ہیں مگر سو لوگوں سے مقابلہ کر کے انعام جیتنا کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہیے ۔ 

نظریہ احتمال (Probability Theory) کے تحت اگر میں ہر سال دس کالجوں کے پروفیسروں سے بھی اپنی نامزدگی ’فارورڈ‘ کر وا لوں تو اگلے دس پندرہ برس میں سویڈش کمیٹی مجھے یہ انعام دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ لیکن میرے دوست نے یہ کہہ کر میری امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ اول تو اپنی نامزدگی کرنے والا از خود نا اہل ہو جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ سویڈش اکیڈمی جن تعلیمی اداروں کی نامزدگیوں پر غور کرتی ہے اُن میں گورنمنٹ کالج برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن، تاندلیانوالہ بہر حال شامل نہیں۔ تفنن برطر ف، نوبل انعام پر زیادہ تنقید ادب اور امن کے شعبوں میں دئیے جانے والے تمغوں پر ہوتا ہے۔1901 میں جب نوبل انعام کا سلسلہ شروع ہوا اُس وقت ٹالسٹائی زندہ تھا، جنگ اور امن تہلکہ مچا چکا تھا، مگر کمیٹی نے اسے نوبل انعام کے قابل نہیں سمجھا۔ اسی طرح کافکا، جیمز جوائس، بورخیث، گورکی، بریخت، تھامس ہارڈی، مارک ٹوین، چیخوف بھی نوبل انعام کے حقدار نہیں سمجھے گئے جبکہ اِن کے مقابلے میں سکینڈینیویا کے کئی غیر معروف ادیبوں کو یہ ایوارڈ آسانی سے مل گیا۔

ادھر برصغیر میں یہ ایوارڈ کوئی سو سال پہلے ٹیگور کو دیا گیا تھا ، اس کے بعد علامہ اقبال، قرہ العین حیدر، بیدی، منٹو، اشفاق احمد، کرشن چندر، غلام عباس، نیر مسعود ، مشتاق یوسفی وغیرہ میں سے کسی کو اِس انعام کے قابل نہیں سمجھا گیا۔آگ کا دریا کا ترجمہ خود قرہ العین حیدر نے کیا تھا مگر سنا ہے کہ وہ ترجمہ اعلی ٰ معیار کا نہیں تھا، اسی طر ح حال ہی میں آب ِ گم کا ترجمہ بھی شائع ہوا ہے مگر بات نہیں بنی ۔ بنے بھی کیسے۔ یوسفی صاحب نے تو اپنے دیباچے کا عنوان ہی ’’پس و پیش لفظ ‘‘ رکھا ہے ، بھلا اِس کا کیا ترجمہ ہو سکتا ہے اور کیسے سویڈش اکیڈمی والوں کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ یوپی سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے کردار ’قبلہ ‘ جب اپنی اجڑی ہوئی حویلی کی تصویر دکھا کر ہر کسی کو کہتے پھرتے ہیں کہ ’’یہ چھوڑ کر آئے ہیں ‘‘ تو اس ایک فقرے میں کیا جہان آباد ہے۔ بہرکیف، مجھے خوشی ہے کہ مارک ٹوین سے لے کر ٹالسٹائی تک اور قرہ العین حیدر سے لے کر مشتاق یوسفی تک کسی کو ادب کا نوبل انعام نہیں ملا، اب میں اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے نوبل انعام کی کوئی خواہش نہیں۔ البتہ عاشق چمٹے والے کی طرح اگر کوئی دوست سویڈش اکیڈمی کو میری نامزدگی بھیجے گا تو ٹالسٹائی کی طرح میں کوئی اعتراض بھی نہیں کروں گا، آخر اُن غریبوں کا اچھا بھلا روز گار لگا ہے، کیوں میری وجہ سے خراب ہو!

یاسر پیر زادہ

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments