Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

شان الحق حقی : ماہر لسانیات، محقق، نقاد، مترجم اور شاعر

سنہ 1917ء کو اردو زبان کے ممتاز ماہر لسانیات، محقق، نقاد، مترجم اور شاعر شان الحق حقی دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی، سینٹ اسٹیفن کالج، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور دہلی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ شان الحق حقی، شیخ عبدالحق محدث کے خانواد ے سے تھے اور مولوی احتشام الدین عرف ناداں دہلوی کے فرزند، ان کے والد نے دیوانِ حافظ اور رباعیات عمر خیام کو اردو میں منتقل کیا۔ حقی صاحب کو ان کے بزرگ دوست چاند صاحب بھی کہتے تھے۔ آپ مختلف علمی رسائل و جرائد کے مدیر رہے، نیز قومی محکمہ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی سے منسلک رہے۔ ترقی اردو بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لئے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ آپ کثیراللسان محقق تھے اور اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ جدید آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری آپ ہی کی مرتب کردہ ہے۔

تارِ پیراہن (منظومات)، نکتہ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، ارتھ شاستر (ترجمہ) اور انجان راہی آپ کی اہم کاوشیں ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ اور متنوع کام کیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے علمی کارناموں کی اس قدر پذیرائی نہیں ہوئی جس قدر ہونی چاہیے تھی۔ یہی وجہ سے کہ ان کا یوم پیدائش اور یوم وفات خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ شان الحق حقی خود نمائی کو ناپسند کرتے تھے اور نسبتاً تنہائی پسند تھے۔ آپ کو اپنے کام سے اتنا لگائو تھا کہ گھر والوں کو وقت نہ دے پاتے اور اس کی شکایت اکثر ان کے بچوں کو رہتی تھی۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مگن رہتے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ ان کے بچے کس کلاس میں زیر تعلیم ہیں۔ جب کوئی مہمان آتا اور پوچھتا کہ فلاں بچہ کس کلاس میں ہے تو بچے سے کہتے کہ ''بھئی بتائو کس کلاس میں ہو‘‘۔ وہ اٹھاراں اٹھاراں گھنٹے تک دفتر میں گزار دیا کرتے تھے اور گھر صرف سونے جاتے تھے۔ وہ بہت ذہین آدمی تھے ، تھوڑ ے بھلکڑ بھی تھے۔

سنہ 1958ء میں اردو لغت بورڈ کے قیام کے بعد آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری کی طرز پر اردو کی ایک جامع لغت مرتب کرنے جیسا بڑا کام ہونا تھا۔ اس میں تاریخی اصولوں پر اردو کے تمام الفاظ کو جمع کیا جانا تھا۔ بابائے اردو بورڈ کے پہلے چیف ایڈیٹر تھے اور ان کے سیکریٹری تھے حقی صاحب۔ انہوں نے کتب کو جمع کرنے سے لے کر سٹاف کی بھرتی تک تمام امور خوش اسلوبی، دلجمعی اور محنت سے سرانجام دیئے۔ اگرچہ انہیں ناگوار حالات کی وجہ سے بورڈ کو خیرباد کہنا پڑا لیکن تب تک اردو لغت مرتب کرنے کا بہت سا کام ہو چکا تھا۔ وہ اردو لغت بورڈ سے کم و بیش 17 سال منسلک رہے۔ شان الحق حقی نے بھر پور زندگی بسر کی۔ بلاشبہ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے متعدد حیثیتوں میں خدمات سرانجام دیں لیکن شاید انہیں سب سے زیادہ محبت لغت نگاری سے تھی۔ ان کی تیار کردہ آکسفورڈ انگریزی اردو لغت طلبہ سے لے کر اہل علم تک سب کے گھروں کی زینت بنی۔ انہیں اردو الفاظ کے تلفظ پر عبور حاصل تھا اور اسی لیے ان کی تیار کردہ ''فرہنگِ تلفظ‘‘ اپنی مثال آپ ہے۔ 

تراجم اورشاعری سے لے کر صحافت تک ہر جگہ ان کی تحریروں میں اردو کی چاشنی اور الفاظ کا تنوع دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے بہت لکھا اور کمال لکھا۔ ایک اندازے کے مطابق 60 سے زائد کتابیں لکھیں۔ ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھنے کے علاوہ حافظ ایک مطالعہ اور ترجمان الغیب جیسی کتب تخلیق کیں اور دیوان حافظ کا منظوم ترجمہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک لغت بھی مرتب کی۔'' شاخسانے ‘‘ ان کے افسانوں پر مبنی بہت عمدہ کتاب ہے۔بچوں کی مشہور نظم ''اے خدا میرے ابو سلامت رہیں‘‘ لکھی۔ شان الحق حقی کی معروف تخلیقات میں نظموں کے دو انتخاب ''تار پیراہن‘‘، حرف دل رس‘‘، غزلوں کا مجموعہ ''دل کی زبان‘‘ ادبی تنقید کی کتاب ''نقد ونگارش‘‘، ''،،مقالاتِ ممتاز‘‘، کہانیوں کا مجموعہ ''شاخسانے‘‘، ملی شاعری کا انتخاب ''شہید حریت‘‘ ، مضامین ''نکتہ راز‘‘ اور مختلف زبانوں کی شاعری کا ترجمہ ''درپن درپن‘‘، ''انتخاب کلام ظفر‘‘،'' لسانی مسائل ولطائف‘‘، ''آئینہ افکار غالب‘‘، ''نوک جھونک‘‘، ''سہانے ترانے‘‘ شامل ہیں۔ 

اس کے ساتھ بین الاقوامی اہم مضامین کا اردو ترجمہ ''تیسری دنیا‘‘، بنگالی شاعر قاضی نذرالاسلام کی نظموں کا اردو ترجمہ ''صوراسرافیل‘‘، پاکستان کے چالیس لوک شعرا کے کلام کا انتخاب شامل ہے۔ یہ فہرست نامکمل ہے۔ ان کی کتابیں دنیا کی بیشتر اہم لائبریریوں سمیت لائبریری آف کانگریس اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو لائبریری میں بھی موجود ہیں۔ نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے شاید کم ہی افراد کو معلوم ہو کہ اس معروف غزل کے خالق حقی صاحب ہیں: 

تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے

 ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے

دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب 

زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے 

بعد میں شان الحق حقی کینیڈا منتقل ہو گئے اور 11 اکتوبر 2005ء کو اونٹیوریو میں 87 سال کی عمر میں جگر کے عارضے کے باعث اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ شان الحق حقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔

طیب رضا عابدی

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments