Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

میر تقی میر کراچی میں : مشتاق احمد یوسفی

پہلی ہی نظر میں میر تقی میر نے کراچی کو اور کراچی نے میر تقی میر کو مسترد کر دیا۔ اٹھتے بیٹھتے کراچی میں کیڑے نکالتے، شکایت کا انداز کچھ ایساہی تھا،
''حضرت، یہ مچھر ہیں یا مگر مچھ۔ کراچی کا مچھر ڈی ڈی ٹی سے بھی نہیں مرتا، صرف قوالوں کی قوالی سے مرتا ہے۔ یا غلطی سے کسی شاعر کو کاٹ لے، تو بائولا ہو کر بے اولادا مرتا ہے، نمرود مردود کی موت ناک میں مچھر گھسنے سے ہوئی تھی، کراچی کے مچھروں کا شجرہ نسب کئی نمرودوں کے واسطے سے اس مچھر سے جا ملتا ہے۔ اور ذرا زبان تو ملاحظہ فرمایئے، میں نے پہلی مرتبہ ایک صاحب کو پکارتے سنا تو میں سمجھا کہ اپنے کتے کو بلا رہے ہیں، معلوم ہوا کہ یہاں ہیلپر کو پٹے والا کہتے ہیں۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ پھڈا اور لفرا ہوتا رہتا ہے، ٹوکو تو کہتے ہیں، اردو میں اس صورتحال کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ بھائی میری اردو میں یہ صورتحال بھی تو نہیں ہے۔ ممبئی والے لفظ اور صورتحال ، دونوں اپنے ساتھ لائے ہیں۔

میر تقی میر اونٹ گاڑی میں منہ باندھے بیٹھے رہے۔ اپنے ہم سفر سے اس لئے بات نہ کی کہ ''زبان غیر سے اپنی زباں بگڑتی ہے ‘‘۔ میر صاحب کراچی میں ہوتے تو بخدا ، ساری عمر منہ میں ڈھاٹا باندھے پھرتے، یہاں تک کہ ڈاکوئوں کا سا بھیس بنائے پھرنے پر کسی ڈکیتی میں دھر لئے جاتے۔ اماں، ٹونک والوں کو امرود کو صفری کہتے تو ہم نے بھی سنا ہے، یہاں امرود کو جام کہتے ہیں۔ اور اس پر نمک مرچ کی بجائے ''صاحب‘‘ لگا دیں تو مرزا نواب صاحب لسبیلہ ہوتے ہیں۔ اپنی طرف وکٹوریہ کا مطلب ملکہ وکٹوریہ ہوتا ہے، یہاں تک کسی ترکیب سے دس بارہ جنے ایک گھوڑے پر سواری گانٹھ لیں تو اسے وکٹوریہ کہتے ہیں۔ میں دو دن لاہور میں رکا تھا۔ وہاں دیکھا کہ نیا فیشن چل پڑا ہے، گانے والے کو گلوکار اور لکھنے والے کو قلم کار کہتے ہیں۔ میاں، ہمارے وقتوں میں تو صرف نیکو کار اور بدکار ہوا کرتے تھے۔ قلم اور گلے سے یہ کام نہیں لیا جاتا تھا۔

''میں نے لالو کھیت، بہار کالونی ، چاکی واڑہ اور گولی مار کا چپہ چپہ دیکھا ہے، 14، 15 لاکھ آدمی (اخبار والے اب بھی' آدمی‘ کہنے سے شرماتے ہیں، اور افراد یا نفوس لکھتے ہیں ) ضرور رہتے ہوں گے۔ لیکن وہاں کتابوں اور عطریات کی دکان نہ دیکھی ۔ کاغذ تک کے پھول نظر نہ آئے۔ کانپور میں ہم شرفاء کے گھروں میں کہیں نہ کہیں موتیا کی بیل ضرور چڑھتی تھی۔ حضور والا، یہاں موتیا صرف آنکھوں میں اترتا ہے، حد ہو گئی۔ کراچی میں لکھ پتی، کروڑ پتی، سیٹھ لکڑی اس طرح نپواتا ہے گویا کم خواب کا پارچہ خرید رہا ہے ۔ لکڑی دن میں دو فٹ بکتی ہے، اور بردہ خریدنے والے پچاس۔ مانا کہ روپیہ بہت کچھ ہوتا ہے، مگر سبھی کچھ نہیں ہوتا، زر کو حاجت روا کرنے والا، قاضی الحاجات کہلاتا ہے۔ تسلیم، مگر جب یہ خود سب سے بڑی حاجت بن جائے تو وہ صرف موت سے رفع ہو گی۔ میں نے تو زندگی میں ایسی کانی کھتری لکڑی نہیں بیچی۔ نہ فروختنی نہ سوختنی۔ بڑھئی کی یہ مجال کہ چھاتی پہ چڑھ کے کمیشن مانگے، نہ دو تو مال کو گندے انڈے کی طرح قیامت تک سیتے رہو۔

مشتاق احمد یوسفی

بشکریہ دنیا نیوز 

Post a Comment

0 Comments