قادرِ مطلق اپنے کچھ بندوں کو ایسی زبردست صلاحیتوں سے نوازتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کے فن کی ایک نہیں بلکہ کئی جہتیں منظرِ عام پر آتی ہیں اور کثیر الجہات شخصیات اپنی قابلیت اور ذہانت کے ایسے نقوش چھوڑتی ہیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ خاطر غزنوی بھی ایسی ہی شخصیت تھے وہ شاعر، ڈرامہ نگار اور محفق تھے۔ انہوں نے بچوں کے ادب کے لئے بھی بڑا کام کیا۔ ان کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ انہوں نے کئی زبانوں میں ادب تخلیق کیا۔ وہ اکادمی ادبیات آف پاکستان کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ وہ 5 نومبر 1925 کو غزنی (افغانستان) میں پیدا ہوئے۔ کئی بار ان کا حوالہ ایک محقق، ماہر لسانیات، ماہر تعلیم اور کالم نگار کے طور پر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اردو اور ہندکو ادب پر بھی بھرپور تحقیق کی۔ انہوں نے اردو ، ہندکو اور پشتو زبان میں قریباََ 50 کتابیں تصنیف کیں۔ بچوں کیلئے جو ادب تخلیق کیا وہ الگ ہے۔ انہیں پشتو کے ممتاز ترین ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ادب کیلئے لاثانی خدمات سرانجام دینے پر 1999 میں خاطر غزنوی کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نواز گیا۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم بنوں میں حاصل کی اور پھر پشاور میں پڑھتے رہے۔ 1958 میں انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد وہ اسی یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد پروفیسر کے عہدے پر ترقی ہو گئی اور پھر چیئرمین بن گئے۔ انہوں نے مقامی اور غیر ملکی زبانیں سیکھیں جن میں اردو، پشتو، ہندکو، انگریزی، فارسی، چینی اور روسی زبان شامل ہیں۔ البتہ جو کتابیں انہوں نے تحریر کیں وہ مقامی زبانوں میں تھیں، ایک ایڈیٹر کی حیثیت سے وہ کالم لکھتے رہے اور انہوں نے مختلف جرائد اور اخبارات میں بھی کام کیا۔ خاطر غزنوی نے اسلام آباد میں اکادمی ادبیات آف پاکستان میں ریسرچ فائونڈیشن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیئے۔ انہوں نے کوئی عام نہیں بلکہ عالمانہ تحقیق کی۔ انہوں نے خیبر پختونخوا کی انجمن ترقی پسند کے نائب صدر کی حیثیت سے کام کیا۔ اور پھر پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے چیئرمین مقرر ہو گئے۔ جہاں تک ان کے ادبی کیریئر کا تعلق ہے تو انہوں نے سب سے پہلے آل انڈیا ریڈیو میں کلرک کی حیثیت سے کام کیا۔ بعد میں وہ پروگرام آگنائزر اور پروڈیوسر بنا دیئے گئے۔
انہوں نے بیرون ملک بھی درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیئے۔ وہ ملائشیا گئے جہاں انہیں ''عام الفاظ‘‘ کی ''لغت‘‘ لکھنے کو کہا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ وہ اردو اور ملایا زبان میں لُغت لکھیں۔ اس لُغت کو بعد میں ملائشیا کی حکومت نے شائع کیا۔ ان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے پشاور یونیورسٹی میں شعبہ چینی زبان متعارف کرایا۔ خاطر غزنوی نے پہلا ناول اس وقت لکھا جب وہ سکول میں تھے۔ ہندکو زبان میں ان کی تمام شاعری ''کونجاں‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ ان کو یہ بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے خوشحال خان خٹک کی شاعری کا اردو اور ہندکو میں ترجمہ کیا۔ ان کی شاعری کی کتاب ''خواب درخواب‘‘ کو ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انہوں نے ہندکو پر ایک کتاب لکھی جو جغرافیہ اور اس کی تاریخ کے حوالے سے ہے۔ خاطر صاحب نے پشتو اور ہندکو کے علاوہ اردو زبان کی ترقی کیلئے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان کی خدمات کو قومی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ اردو ادب میں ان کی تحقیق کو کبھی کبھی '' غیر روایتی‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔
زندگی کے آخری ایام میں خاطر غزنوی نے اپنی تمام کتب پشاور یونیورسٹی کو عطیہ کر دیں۔ جہاں ان کی تمام تصنیفات ایک لائبریری میں محفوظ ہیں۔ ذیل میں ان کی جن کتب کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ پھول اور پتھر(ناول) شاب اور روحان (پاکستانی لوک کہانیاں) سردی کی رمانوی کہانیاں (لوک قصے)، خواب در خواب ( شاعری) ، سانپ کی چھتری (شاعری) خوشحال خان خٹک کی شاعری (ترجمہ)، دستار نامہ (ترجمہ)، خوشحال نامہ (ترجمہ)، رقص نامہ (ترجمہ) زندگی کیلئے (ڈرامہ) ، منزل بہ منزل، پاکستان میں اردو (تحقیق) ، خیابان اردو (تحقیق) اور اردو زبان کا ماخذ ہندکو (تحقیق) ۔ انہوں نے بڑی معیاری غزلیں اور نظمیں تخلیق کیں۔
ان کی غزل جدید طرز احساس کی نمائندہ غزل ہے جس میں شعری طرز احساس کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ وہ جمالیاتی طرز احساس سے بھی غافل نہ تھے۔ غم جاناں اور غم دوراں کو ساتھ ملا کر انہوں نے خوبصورت شاعری تخلیق کی۔ وہ معروضی صورت حال کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتے تھے اور انہوں نے جو تراکیب استعمال کی ہیں انکی توصیف نہ کرنا بھی نا انصافی ہو گی۔ ان کی کچھ غزلیں ریڈیو پر گائی گئیں جو بہت مقبول ہوئیں۔ خاص طور پر یہ غزل '' گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے‘‘ اور ''جب اس زلف کی بات چلی‘‘ کو بہت شہرت ملی۔ یہ دونوں غزلیں مہدی حسن نے گائیں۔ بعض اوقات خاطر غزنوی کی قوت متخیلہ سادگی اور سلاست کا لباس پہن کر قاری کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ ہم ذیل میں خاطر غزنوی کی غزلوں کے کچھ اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے ا فسانے گئے
جب اُس زلف کی بات چلی ڈھلتے ڈھلتے رات ڈھلی
پہلی محبتوں کے زمانے گزر گئے ساحل پہ ریت چھوڑ کے دریا اتر گئے
گفتگو تلخ حقائق سے بھی ہو خواب ہی خواب کہاں تک سوچوں
ہر قدم ایک مُعمہ بن جائے زندگی تجھ کو جہاں تک سوچوں
تیری طلب تھی تیرے آستاں سے لوٹ آئے خزاں نصیب رہے گلستاں سے لوٹ آئے
نہ دل میں اب وہ خلش ہے نہ زندگی میں تڑپ یہ کہ دو پھر مرے درد نہاں سے لوٹ آئے
گو تیرے الفات کے قابل نہیں مگر ملتی ہیں تیرے دل سے مرے دل کی دھڑکنیں
وحشتوں کا کبھی شیدئی نہیں تھا اتنا جیسے اب ہوں تیرا سودائی نہیں تھا اتنا
انسان ہوں گھر گیا ہوں زمیں کے خدائوں میں اب بستیاں بسائوں گا جا کر خلائوں میں
یوں تو رواں میں میرے تعاقب میں منزلیں لیکن میں ٹھوکروں کو لپیٹے ہوں پائوں میں
اِک تجسس دل میں ہے یہ کیا ہوا کیسے ہوا جو کبھی اپنا نہ تھا وہ غیر کا کیسے ہوا
میں کہ جس کو میں نے تو دیکھا نہ تھا سوچا نہ تھا سوچتا ہوں وہ صنم میرا خدا کیسے ہوا
اب ذیل میں خاطر غزنوی کی ایک نظم ''جنگل میں منگل‘‘ پیش کی جا رہی ہے۔ یہ نظم انہوں نے بچوں کیلئے لکھی تھی۔
اِک جنگل میں ہوئے اکٹھے سارے جانوروں کے بچے
بھیڑ نے اپنا لیلہ بھیجا گائے نے بھی بچھڑا بھیجا
کتے کا پلا بھی آیا اُلو کا پٹھا بھی آیا
بکری نے بھی میمنے بھیجے مُرغی کے چوزے بھی آئے
بطخ کے بچے بھی آئے باز، کبوتر، کوا ،چڑیا
ہاتھی، اونٹ، عقاب اور شکرا بندر، شیر ، ہرن اور کچھوا
تیتر، مور، بٹیر، اور بگلا طوطا، مینا ،فاختہ
سب نے اپنے اپنے بچے بھیجے کہیں تھی چیں چیں کہیں چیائوں کہیں تھی میں میں کہیں میائوں
سب نے مل کر شور مچایا کوئی چیخا اور کوئی ممیایا
کوئی اتنے زور سے بھونکا اُلو بھی سوتے میں چونکا
خوب یہ جلسہ چمکا یعنی بات نہ سمجھا کوئی کسی کی
یہ بے مثل شاعر، ڈرامہ نگار اور محقق 2008 میں عالم ِ جاوداں کو سدھار گئے۔
0 Comments