Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کہاں گئے وہ عید کارڈز، وہ بچپن کی عیدیں

ایک دور تھا جب عید کارڈ بھیجنا کم و بیش لازمی تصور کیا جاتا تھا۔ عید کارڈ کے اسٹالوں پر لوگوں کا رش رہتا۔ اکثر ان کارڈز پر پھولوں کی خوبصورت اور قدرتی مناظر کی دلکش تصاویر ہوتیں اور کچھ کارڈ ایسے بھی ہوتے جن پر جدائی کے کرب کا اظہار ملتا۔ بہتے ہوئے آنسوئوں کی تصویر والے کارڈ دل جلوں کو اپنی طرف کھینچتے۔ کسی سے بچھڑ کر اکیلے میں آنسو بہانے وا لے لوگوں کو یہ کارڈ اپنی ہی داستان غم معلوم ہوتے اور کچھ کارڈز پہ دکھی اشعار رقم ہوتے جنہیں پڑھ کر دل والے دل تھام کے رہ جاتے۔ عید کارڈ لکھنے کا آغاز عام طور پر لکھنے کی عمر سے کچھ پہلے ہی ہو جاتا۔ معصوم بچے اپنے بڑوں سے لکھوا کر اپنے ہم جولیوں کو دیتے اور یوں عید کارڈ معصوم محبت کا پہلا اظہار ٹھہرتا۔ 

سکول اور کالج فیلوز بھی ایک دوسرے کو عید کارڈ دیتے۔ عید کارڈ کو گہری دوستی کی علامت خیال کیا جاتا۔ موصول ہونے والے کارڈز کی گنتی ہوتی، جن نوجوانوں کو اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ کارڈز آتے وہ عجب خوشی محسوس کرتے۔ محبت کے بندھن میں جڑے لوگ کبھی عید کارڈ سیاہی کی بجائے اپنے خون سے لکھتے۔ خون جگر محبت کی سچائی قرار پاتا مگر یہ کارڈ دوسروں سے چھپائے جاتے اور احتیاط پسند لوگ اسے جلا دیتے۔ یوں جلتے ہوئے کارڈ کو دیکھ کر کسی کو اپنا دل بھی جلتا ہوا محسوس ہوتا۔ عید کارڈ محبت ہی نہیں مفادات کے حصول کا بھی سبب بنتا۔ کاروباری ادارے اور تجارتی کمپنیاں متعلقہ افراد کو کارڈ ارسال کرتیں۔

اعلیٰ عہدوں پہ فائز افسران کا کارڈ پانے کے بعد لوگ ہر آنے جانے والوں سے اس کارڈ کا تذکرہ کرتے۔ اپنے بھائیوں کا عید کارڈ پا کر بہن کو بابل کا آنگن یاد آجاتا میکے میں گزارے ہوئے دن آنکھوں میں گھوم جاتے۔ ماں بچوں کو ماموں کی طرف سے آیا ہوا کارڈ دکھاتی اور کارڈ کو سنبھال کر رکھتی کہ یہ عید کارڈ کاغذ ہی نہیں بھائی کی محبت کی نشانی ہوتا۔ کبھی کارڈ پہ عبارت چھپی ہوتی، لکھنے والا صرف اپنا اور دوسرے کا نام لکھ کر پوسٹ کر دیتا۔ ایسے کارڈ سے سرسری تعلق ظاہر ہوتا گہرے تعلقات رکھنے والے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے اشعار لکھتے۔ کبھی مقبول عام اشعار لکھے جاتے اور کبھی محبت کے خاص جذبے کے اظہار کے لئے سطحی اشعار کا سہارا بھی لیا جاتا مگر پڑھنے والے الفاظ پہ کم اور مفہوم پہ زیادہ غور کرتے اور یوں سطحی اشعار کو بھی آنکھوں سے لگایا جاتا۔ 

شعروں کے انتخاب سے کبھی کسی کی رسوائی ہوتی اور بے باکی سے کبھی کوئی زیرعتاب بھی آتا پر دل کے میل میں اور اس کھیل میں سب کچھ چلتا ہی تھا۔ دوسرے کا عید کارڈ پوسٹ کر کے اس کے عید کارڈ کا انتظار کیا جاتا۔ ڈاکیے کی راہ دیکھی جاتی اور کارڈ نہ ملنے پر گلے شکوے ہوتے اور ادھر کبھی بھول جانے کا عذر ہوتا اور کبھی ڈاک والوں پہ الزام دھر دیا جاتا۔ یہ عام بہانے تھے جو شگفتہ معلوم ہوتے تھے۔ ڈاکیا کبھی جان بوجھ کر عید کے قریب کارڈ لاتا اور عیدی کا مطالبہ کرتا۔ کارڈ آنے کی خوشی میں ڈاکیے کو کچھ روپے دے کر عید کارڈ موصول کیا جاتا۔ کبھی کارڈ عید کے بعد بھی ملا کرتے اور طرفین یہی عزم کرتے کہ آئندہ عید پہ وہ کارڈ ٹھیک وقت پر ارسال کریں گے۔

اب عید کارڈ کی جگہ ایس ایم ایس نے لے لی ہے مگر کون کہتا ہے کہ ایس ایم ایس عید کارڈ کی جگہ لے سکتا ہے۔ ایس ایم ایس تو عید کے دن ہی ڈیلیٹ ہو جاتے ہیں۔ جن کے لفظ یاد رہتے ہیں اور نہ مفہوم ذہن نشین رہتا ہے، پر عید کارڈ تو آج بھی دل والوں نے سنبھال کر رکھے ہیں کہ بوسیدہ کارڈ سے پرانی محبت کی یاد جڑی ہے۔ کوئی پرانے عید کارڈ پہ مانوس لکھائی دیکھتا ہے اور پہروں سوچتا ہے کہ لکھے ہوئے نصیب کی سچائی کس قدر امر ہے۔ محبت تعلق اور بندھن کی شکل بس کارڈ ہی رہ گئی ہے اگر یہ عید کارڈ نہ ہوتے تو یاد کی کوئی مجسم شکل باقی نہ رہتی ۔

غضنفر ناطق

Post a Comment

0 Comments