Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

فلسفہ تاریخ کا بانی ابن ِ خلدون

یہ وہ بلند پایہ عالم ہے جس نے سب سے پہلے تاریخ کے فلسفے کی بنیاد ڈالی، جزوی واقعات سے نتائج کلیہ نکالے، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر بحث کی اور آئندہ مؤرخین کو تاریخ کے صحیح استعمال کا طریقہ بتایا۔ ابن خلدون کا خاندان پہلے عرب سے آکر اُندلس میں آباد ہوا، پھر وہاں سے تیونس میں آ گیا اور وہیں 732ھ میں ابنِ خلدون پیدا ہوا۔ اس نے چھوٹی ہی عمر میں قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ، منطق، ادب اور تاریخ میں کمال پیدا کر لیا۔ اُس کے علم و فضل کی بہت شہرت ہوئی۔ تلمسان کے بادشاہ نے پہلے اس کی بہت تعظیم کی اور اس کو اپنا کاتب مقرر کیا، لیکن پھر کسی وجہ سے ایسا ناراض ہوا کہ اس کو قید میں ڈال دیا۔

چار سال بعد بادشاہ فوت ہو گیا تو 764ھ میں ابنِ خلدون رہا ہو کر غرناطہ پہنچا۔ سلطان ابو عبداللہ نے اس کا شاندار استقبال کیا۔ ابن خلدون اپنی بقیہ عمر غرناطہ ہی میں بسر کرنا چاہتا تھا، لیکن بعد میں تلمسان واپس چلا گیا اور اسی کے ایک نواحی قلعے میں اس نے اپنی تاریخ اور اس کا مقدمہ لکھنا شروع کیا۔ یہ ’’مقدمہ‘‘ یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اہل علم اس کو دنیا کی چند بڑی بڑی کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔ چار برس تیونس میں رہ کر ابن خلدون اسکندریہ ہوتا ہوا قاہرہ پہنچا اور مشہور اسلامی یونیورسٹی جامعہ ازہر میں علوم اسلامی کی تعلیم و تدریس میں مصروف رہا۔ اس کے علم کی شہرت نے اس کو سلطان مصر کے دربار میں پہنچا دیا۔ سلطان نے 786ء میں اسے مالکیہ کا قاضی مقرر کر دیا۔ اس کے عدل و انصاف اور مہارت قانون کی وجہ سے بادشاہ اور علماء سب اُس کے گرویدہ ہو گئے۔

اسی زمانے میں اس کے اہل و عیال تیونس سے جہاز میں مصر کو آرہے تھے، اور ابن خلدون سالہا سال کے بعد ان سے ملاقات کے خیال سے بے حد خوش تھا کہ سمندر میں طوفان آ گیا اور وہ جہاز غرق ہو گیا۔ ابنِ خلدون کو اِس حادثے اسے بہت صدمہ ہوا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے کاموں میں دن رات محنت سے مصروف رہا۔ 789ھ میں اس نے حج کیا اور واپس قاہرہ میں آکر اپنی عظیم الشان تصنیف ’’تاریخ ابنِ خلدون‘‘ مکمل کی اور اس کو بھی فارس سلطان عبدالعزیز کی خدمت میں پیش کر کے گراں بہا اِنعامات و عطایا حاصل کیے۔ اندلس اور تیونس کے لوگوں کو اس پر بے حد فخر تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ابن خلدون اپنے وطن میں آکر رہے۔ لیکن مصر کی خاک کچھ ایسی دامن گیر ہوئی کہ آخر 808ھ میں وہیں انتقال کیا۔  

طاہر امجد


Post a Comment

0 Comments