برصغیر کی تاریخ میں بہت کم ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے نہ صرف صحافت کے میدان میں اپنے آپ کو منوایا بلکہ شاعر کی حیثیت سے بھی اپنے نام کا سکہ جمایا۔ اس سلسلے میں مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کے نام بلا تامل لیے جا سکتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان نے ’’زمیندار‘‘ اخبار نکالا اور صحافت کے نئے معیارات قائم کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے شاعری میں بھی کمالات دکھائے۔ خاص طور پر نعت گوئی میں مولانا ظفر علی خان کو ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ مولانا محمد علی جوہر ’’کامریڈ‘‘ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور ان کی شاعری بھی تاثریت سے بھرپور تھی۔
چراغ حسن حسرت بھی انہی خصوصیات کے حامل تھے۔ وہ صحافی بھی اعلیٰ درجے کے تھے اور شاعر بھی بہت عمدہ۔ انہوں نے مزاحیہ کالم نگاری میں قابل رشک مقام حاصل کیا۔ چراغ حسن حسرت 1904 ء میں بارہ مولا کشمیر میں پیدا ہوئے۔ کچھ کے مطابق وہ پونچھ میں پیدا ہوئے۔ وہ جب سکول کے طالب علم تھے تو شاعری کی طرف راغب ہو گئے۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ اپنے کیرئیر کے آغاز میں انہوں نے مختلف سکولوں میں اردو اور فارسی پڑھانا شروع کیا۔ انہوں نے 16 کتابیں تصنیف کیں۔ انہوں نے کئی اخبارات میں کام کیا جن میں ’’انسان‘ زمیندار‘ شیراز اور شہباز‘‘ شامل ہیں۔
انہوں نے مختلف قلمی ناموں سے لکھنا شروع کیا جن میں ’’کولمبس‘ کوچہ گرد اور سند باد جہازی‘‘ شامل ہیں۔ 1920ء میں وہ شملہ کے ایک سکول میں فارسی کے استاد مقرر ہو گئے۔ یہاں ان کی ملاقات مولانا ابوالکلام آزاد سے ہوئی۔ چراغ حسن حسرت مولانا آزاد سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے سکول میں پڑھانا چھوڑ دیا۔ وہ ان سے کولکتہ میں دوبارہ ملنا چاہتے تھے۔ حسرت صاحب نے تسلیم کیا کہ وہ مولانا آزاد سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے صحافت کے میدان میں ہی نہیں بلکہ سیاست اور ادب کے متعلق بھی ان سے بہت کچھ سیکھا۔ 1925ء میں چراغ حسن حسرت اخبار ’’نئی دنیا‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں انہوں نے کولمبس کے قلمی نام سے ’’کلکتے کی باتیں‘‘ کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ اس کالم نے انہیں بہت شہرت دی۔
سینئر ترین صحافیوں نے بھی ان پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ اس کے بعد انہوں نے ’’عصر جدید‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی اور یہاں انہوں نے کوچہ گرد کے قلمی نام سے اپنا مزاحیہ کالم ’’متاع بات‘‘ لکھنا شروع کیا۔ اس کالم سے ان کی شہرت اور توقیر میں مزید اضافہ ہوا۔ 1926ء میں انہوں نے کولکتہ سے اپنا جریدہ ’’آفتاب‘‘ شائع کیا۔ انہوں نے ’’استقلال‘‘ اور ’’جمہور‘‘ میں بھی کام کیا۔ یہ اخبارات ہندوستان کی آزادی کیلئے زبردست کام کر رہے تھے۔ چراغ حسن حسرت نے ’’انصاف‘‘ اور ’’احسان‘‘ میں بھی کام کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انہوں نے ’’فوجی اخبار‘‘ کی بھی ادارت کی۔
وہ روزنامہ ’’امروز‘‘ میں سند باد جہازی کے نام سے بھی کالم لکھتے رہے۔ ان کے اس کالم کو بھی بہت پذیرائی ملی۔ صحافیانہ مصروفیات کی وجہ سے وہ شاعری کے لئے بہت کم وقت نکال سکے۔ اس کے باوجود انہوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال پر ایک طویل نظم تخلیق کی جس کا عنوان تھا ’’سرگزشت اسلام‘‘۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ پر بھی انہوں نے جو کام کیا اس کی بھی بہت تحسین کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ حسرت صاحب نے ’’عصر جدید‘‘ کو اس لئے خیرباد کہا کیونکہ یہ جریدہ مسلم لیگ کا زبردست حامی تھا جبکہ حسرت صاحب ابوالکلام آزاد کی وجہ سے کانگرس کے زیراثر تھے۔ 1928 میں ’’نہرو رپورٹ‘‘ منظر عام پر آئی جس نے پورے ہندوستان میں طوفان بپا کر دیا۔
چونکہ حسرت کانگرس کے حامی تھے اس لئے انہوں نے ’’نہرو رپورٹ‘‘ کی حمایت شروع کر دی اور اس رپورٹ کے حق میں کئی کالم لکھ ڈالے۔ اس پر انہیں مسلمانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی اس غلطی پر سخت پشیمان تھے۔ خوش قسمتی سے مولانا ظفر علی خان کولکتہ میں موجود تھے۔ انہوں نے حسرت صاحب کو لاہور آنے کی دعوت دی اور کہا کہ وہ ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ سے وابستہ ہو جائیں۔ 1929ء میں حسرت صاحب لاہور آ گئے۔ وہ کولکتہ میں مشہور ادیبوں کے ساتھ رہے تھے لیکن اس وقت لاہور بھی ادب و ثقافت کا گڑھ بن چکا تھا۔ یہاں پطرس بخاری‘ عبدالمجید سالک‘ صوفی تبسم‘ حفیظ جالندھری‘ ایم ڈی تاثیر‘ امتیاز علی تاج اور عبدالرحمان چغتائی جیسے نابغۂ روزگار موجود تھے۔ چراغ حسن حسرت کی مشہور کتابوں میں ’’کیلے کا چھلکا‘ متاع بات‘‘ حرف و حکایت‘ دو ڈاکٹر اور مردم دیدہ‘‘ شامل ہیں۔
بدقسمتی سے ان کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہ ہو سکا۔ ذیل میں ان کی غزلوں کے کچھ اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔
آئو حسن یار کی باتیں کریں
زلف کی رخسار کی باتیں کریں
حسرت کہو کہ کس سے آنکھیں لڑائیاں ہیں
ہونٹوں پہ سرد آہیں‘ منہ پر ہوائیاں ہیں
زندگی چارہ ساز غم نہ سہی
موت ہی غم گسار ہو جائے
قطع ہونے لگا ہے رشتہ زیست
اے غم یار تیری عمر دراز
اس طرح کر گیا دل کو مرے ویران
کوئی نہ تمنا کوئی باقی ہے
نہ ارمان کوئی نہیں ہے
دل تو کیا پہلو میں ہلکی سی خلش تو ہے
یہ ہلکی سی خلش بھی رفتہ رفتہ دل نہ بن جائے
26 جون 1955ء کو چراغ حسن حسرت لاہور میں وفات پا گئے۔ وہ اپنے قلمی ناموں کی طرح آج بھی زندہ ہیں۔
0 Comments