Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

اشفاق احمد : ایک نادرِ روزگار ادیب

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے عظیم ترین ادیبوں میں ایک نام اشفاق احمد کا بھی ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ وہ افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، صدا کار اور ناول نگار تھے۔ اشفاق احمد ایک صوفی دانشور کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ 22 اگست 1925ء کو مکتسر (پنجاب) میں مہمند قبیلے کے ایک پشتون خاندان میں پیدا ہونے والے اشفاق احمد نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی ضلعے مکتسر سے حاصل کی۔ 1947 میں آزادی سے تھوڑا عرصہ قبل وہ پاکستان آ گئے اور لاہور میں قیام پذیر ہو گئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ بانو قدسیہ بھی گورنمنٹ کالج میں ان کی ہم جماعت تھیں جو بعد میں ان کی اہلیہ بنیں۔

قیام پاکستان کے بعد جب اشفاق احمد لاکھوں دوسرے مہاجرین کے ساتھ والٹن کیمپ پہنچے تو وہ چوبیس گھنٹے میگا فون پر اعلانات کرتے رہتے۔ بعد میں انہیں ریڈیو آزاد کشمیر میں نوکری مل گئی۔ پھر انہیں دیال سنگھ کالج لاہور میں لیکچرار کی نوکری مل گئی۔ وہاں سے وہ ریڈیو روم میں اردو نیوز کاسٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے روم چلے گئے۔ وہ روم یونیورسٹی میں اردو پڑھایا بھی کرتے تھے۔ یورپ میں قیام کے دوران انہوں نے اطالوی اور فرانسیسی زبانوں میں ڈپلومے حاصل کیے۔ انہوں نے نیویارک یونیورسٹی سے ریڈیو صدا کاری میں خصوصی ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔

اشفاق احمد کو بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔ ان کی کہانیاں بچوں کے ایک ماہنامہ میں شائع ہوتی تھیں۔ یورپ سے پاکستان واپسی پر انہوں نے اپنا ادبی جریدہ ’’داستان گو‘‘ نکالا اور ریڈیو پاکستان میں سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کر لی۔ انہیں حکومت پاکستان نے مشہور ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ کا مدیر مقرر کیا۔ ان سے پہلے شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم ادارت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ 1962 میں اشفاق احمد نے اپنا ریڈیو پروگرام ’’تلقین شاہ‘‘ شروع کیا۔ اس پروگرام نے انہیں شہروں اور دیہاتوں میں بے پناہ مقبولیت بخشی۔ اس پروگرام میں اشفاق احمد کا ساتھ دینے والے دو اور ریڈیو فنکاروں کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ نا انصافی ہو گی۔ یہ دو فنکار تھے نذیر حسینی اور ایوب خان۔ یہ دونوں ہدایت اللہ اور سلمان کے کردار ادا کرتے تھے۔

اشفاق صاحب کا یہ پروگرام 35 برس تک چلتا رہا۔ اس پروگرام کی سب سے بڑی خصوصیت طنز و مزاح کا انوکھا انداز تھا جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔ تلقین شاہ کا کردار خود اشفاق احمد ادا کیا کرتے۔ 1966 میں انہیں مرکزی اردو بورڈ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ بعد میں اس ادارے کا نام اردو سائنس بورڈ رکھ دیا گیا۔ وہ اس ادارے میں 29 برس تک کام کرتے رہے۔ جنرل (ر) ضیا الحق کے دور میں وہ وزارتِ تعلیم میں مشیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ پھر ان کی زندگی کا وہ دور آیا جب وہ صوفی ازم کی طرف مائل ہو گئے۔ اس کا ایک سبب ان کی قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی سے قربت تھا۔ وہ ٹی وی پروگرام ’’بیٹھک‘‘ میں اپنے مداحین کے ساتھ نمودار ہوتے تھے اور پھر ’’زاویے‘‘ میں وہ نوجوانوں کے سوالات کے جوابات دیا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو بڑی اثر انگیز ہوتی تھی اور وہ سامعین پر گہرا تاثر چھوڑتی تھی۔ 

انہوں نے کئی معرکہ آرا ٹی وی ڈرامے تحریر کیے۔ ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کے نام سے ان کی ڈرامہ سیریز بہت مشہور ہوئی۔ ان کے ایک ڈرامے ’’قراۃ العین‘‘ کو شاہکار قرار دیا گیا۔ اسی طرح ان کے طویل دورانیے کے ڈراموں نے بھی عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کا ایک ڈرامہ ’’فہمیدہ کی کہانی‘‘ ایک لازوال ڈرامہ تھا جس میں طبقہ اشرافیہ کے لیے ایک کھلا پیغام تھا کہ وہ دولت کی نمائش نہ کرے کیونکہ اس سے طبقاتی خلیج بڑھتی ہے اور غریب طبقوں کا احساس محرومی بڑھ جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اشفاق صاحب ایک زمانے میں سوشلزم سے بھی متاثر تھے اور انہیں بعض حلقے سوشلسٹ صوفی بھی کہتے تھے۔ بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے۔

اشفاق احمد کی کتابوں میں ’’آرزو کی دھوپ، ایک محبت سو افسانے، ایک زخم اور سہی، مہمانانِ بہار، پھلکاری، سفر در سفر، اجلے پھول اور زاویے‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے بڑے شاندار افسانے تخلیق کیے اور ان کا ایک افسانہ ’’گڈریا‘‘ اردو کے عظیم ترین افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تنگ نظری کی جڑیں کتنی گہری ہوتی ہیں، یہ ’’گڈریا‘‘ پڑھ کر علم ہوتا ہے۔ اشفاق صاحب کے کئی اقوال کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ ذیل میں ان سے میں چند کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ 1۔ فقط ایک عورت کو دیکھ کر اپنا ایمان کھو دینے والی قوم کے نوجوان اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ایمانی طاقت کہاں سے لائیں گے۔ 2۔ اچھے کے ساتھ اچھے رہو لیکن برے کے لیے برے مت بنو کیونکہ تم پانی سے خون صاف کر سکتے ہو پر خون سے خون نہیں۔ 3۔ آج کل تو رشتے دار ان لکڑیوں کی مانند ہو چکے ہیں جو دور ہوں تو دھواں دیتے ہیں اور اکٹھے ہو جائیں تو آگ لگا دیتے ہیں۔ 4۔ جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میں رہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ 5۔برداشت کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب ہم اکثریت میں ہوتے ہیں اور جرأت کا اس وقت جب ہم اقلیت میں ہوتے ہیں۔ 7 ستمبر 2004 کو اشفاق احمد لاہور میں انتقال کر گئے ۔ ان کا نام بھی زندہ رہے گا اور کام بھی۔

عبدالحفیظ ظفر
 

Post a Comment

0 Comments