Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

اردو نثر کی شروعات

اردو زبان کی پیدائش، فروغ اور تہذیب کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ تصور کیا گیا ہے کہ یہ زبان کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک لالۂ خودرو ہے جس نے اپنی غذا عوام سے حاصل کی اور اپنے اثمار بلاامتیاز خواص و عوام میں تقسیم کیے۔ اردو کا اولین روپ کاروباری زبان کی صورت میں ابھرا، لیکن ادبی زبان سب سے پہلے شاعری میں نمایاں ہوئی اور اسے ابتدائی فروغ جنوبی ہند میں حاصل ہوا۔ زمانی اعتبار سے شاعری کے مقابلے میں ادبی نثر بہت عرصے کے بعد ظہور میں آئی۔ رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ ’’اردو نثر کی ابتدا فورٹ ولیم کالج کلکتہ بنا جو دلی سے خاصے فاصلے پر ہندوستان کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔‘‘ سکسینہ کی اس رائے سے اختلاف کی گنجائش یوں موجود ہے کہ اردو نثر کی تاریخ آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتی ہے۔

نثر کے یہ نمونے چھوٹے چھوٹے رسالوں کی صورت میں ہیں، جن میں دکن اور گجرات کے فقرا اور اہل دلی کے اقوال و امثال قلم بند کیے گئے ہیں۔ حکیم شمس اللہ قادری نے شیخ عین الدین گنج العلم (متوفی 798ھ) کے رسالے کو اردو کی قدیم ترین کتاب شمار کیا ہے۔ تاہم اس رسالے کے مخطوطے پر تاحال کسی کی نظر نہیں پڑی۔ البتہ خواجہ گیسو دراز (متوفی 835ھ) کی تصنیف ’’معراج العاشقین‘‘ کی اشاعت سے ان کے زمانے سے پہلے کی اردو نثر کے وجود کا قیاس کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ خواجہ گیسو دراز کے نواسے سید محمد عبداللہ حسینی نے سلطان احمد شاہ ثانی کے زمانے میں شیخ عبدالقادر جیلانی کے رسالہ ’’نشاط العشق‘‘ کا ترجمہ کیا اور اس کی شرح بھی لکھی، شاہ میراں جی شمس العشاق (متوفی 952ھ) کا قلم نثر اور شاعری دونوں میں رواں تھا۔ انہوں نے شرح ’’مرغوب القلوب‘‘ لکھی اور ان کے فرزند شاہ برہان الدین جانم (متوفی 990ھ) نے ’’جل ترنگ‘‘ اور گلباس‘‘ تصنیف کیں۔ 

ادبی نقطہ نظر سے اردو کی قدیم کتابوں میں ملا وجہی کی تصنیف ’’سب رس‘‘ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس کتاب سے اردو نثر کو نہ صرف تخلیقی اظہار کی راہ مل گئی بلکہ اب اردو نثر کو فارسی کی نثر کی سطح پر لانے کی کوشش بھی شروع ہو گئی۔ ملا وجہی سے پہلے کی بیشتر تصنیفات مذہبی نوعیت کی ہیں اور ان کا مقصد نظریاتی مسائل اور مذہبی اعتقادات کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔ ملا وجہی نے ایک خیالی قصے کو ادبی شان سے پیش کیا اور رنگارنگ مواد کی مدد سے اردو زبان کی لسانی خوبیوں کو اجاگر کر دیا۔ چنانچہ وجہی کو اردو نثر کے ان نمائندہ ادبا میں شمار کیا گیا ہے جن کا اسلوب نہ صرف موضوع پر چھایا ہوا ہے بلکہ جنہیں عہد آفریں بھی کہا جا سکتا ہے اور جو ایک مخصوص علاقے اور ایک خاص دور کے ممتاز نمائندہ بھی ہیں۔ شمالی ہندوستان میں اردو نثر کی کتاب ’’کربل کتھا‘‘ یا ’’دہ مجلس‘‘ محمد شاہی عہد میں فضلیؔ نے لکھی۔ 

محمد حسین آزادؔ نے اسے اردو کی پہلی نثری تصنیف شمار کیا ہے۔ لیکن جدید تحقیق نے دکن کے بہت سے قدیم مخطوطات کو دریافت کر لیا ہے اور ’’معراج العاشقین‘‘ کی اشاعت سے اردو نثر کے فروغ کی اولیت بھی دکن ہی نے حاصل کر لی ہے۔ فضلیؔ اردو کے بجائے فارسی اسلوب سے زیادہ متاثر تھا۔ اس کے جملے گنجلک اور نثر کا اسلوب مقفّیٰ ہے۔ جملوں کی استخوان بندی میں بھی سلاست اور سادگی نظر نہیں آتی۔ چنانچہ اسے اردو نثر کا نمائندہ اسلوب قرار دینا ممکن نہیں۔ میرزا رفیع سوداؔ کے دیوان مرثیہ کا دیباچہ اس دور کی نثر کا ایک اور نمونہ پیش کرتا ہے۔ سوداؔ کی نثر کو دیکھ کر یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اردو کو فارسی کے ہم پایہ بنانے کے لیے اس زمانے میں کتنی کدوکاوش کی جارہی تھی۔ سوداؔ نے شاعری کے اسلوب کو نثر میں برقرار رکھنے کی کوشش کی اور عبارت کو زور دار بنانے کے لیے قوافی کا استعمال بھی کیا ہے۔

انور سدید
 

Post a Comment

0 Comments